اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو نہ صرف عبادات بلکہ معاملات، اخلاقیات اور معاشرتی آداب کو بھی اپنی تعلیمات میں شامل کرتا ہے۔ انہی آداب میں سے ایک اہم اصول "فضول اور لغو باتوں سے بچنا" ہے۔ لغو باتیں وہ ہوتی ہیں جو نہ دین میں فائدہ دیتی ہیں اور نہ دنیا میں۔ یہ باتیں انسان کے وقت کو ضائع کرتی ہیں، دل کو سخت کرتی ہیں اور آہستہ آہستہ انسان کو گناہ کی طرف مائل کرتی ہیں۔
قرآن مجید کی روشنی میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی ایک اہم صفت یہ بیان فرمائی:
"وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ" (سورہ المؤمنون، آیت 3)
ترجمہ: اور وہ (مومن) لغو باتوں سے منہ موڑ لیتے ہیں۔
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ مومن کی پہچان یہی ہے کہ وہ بے مقصد، فضول اور بےہودہ باتوں سے خود کو دور رکھتا ہے۔ ایک سچا مومن اپنی زبان اور وقت کا صحیح استعمال کرتا ہے۔ احادیث کی روشنی میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ"(ترمذی)
ترجمہ: "آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کو چھوڑ دے جو اس سے متعلق نہ ہوں۔"
یہ حدیث ہمیں سکھاتی ہے کہ مومن اپنی گفتگو میں محتاط ہوتا ہے، نہ فضول بولتا ہے اور نہ فضول سنتا ہے۔
فضول اور لغو باتوں کے نقصانات
1. وقت کا ضیاع: زندگی کا ہر لمحہ قیمتی ہے۔ فضول گفتگو اس قیمتی وقت کو ضائع کر دیتی ہے۔
2. دل کی سختی: لغو باتوں میں پڑنے سے دل میں نرمی اور روحانیت ختم ہو جاتی ہے۔
3. گناہوں کی طرف مائل ہونا: ابتدا میں جو بات فضول لگتی ہے، وہ آہستہ آہستہ جھوٹ، غیبت، بہتان اور مذاق اڑانے میں بدل سکتی ہے۔
4. معاشرتی بگاڑ: جب افراد فضول اور بےہودہ باتوں میں مشغول ہوں تو معاشرہ اخلاقی طور پر زوال کا شکار ہو جاتا ہے۔
فضول باتوں سے بچنے کے فائدے
1. اللہ کی رضا: اللہ تعالیٰ ایسے بندوں سے محبت کرتا ہے جو وقت اور زبان کا درست استعمال کرتے ہیں۔
2. دل کا نور: جب انسان فضول باتوں سے بچتا ہے تو اس کے دل میں سکون اور نور پیدا ہوتا ہے۔
3. علم و حکمت کا دروازہ کھلتا ہے: سنجیدہ اور بامقصد گفتگو انسان کو علم، حکمت اور فہم عطا کرتی ہے۔
4. معاشرتی عزت و وقار: ایسے افراد جو اپنی زبان قابو میں رکھتے ہیں، وہ لوگوں میں عزت پاتے ہیں۔
کچھ بنیادی اصول
بولنے سے پہلے سوچیں: کیا یہ بات فائدہ مند ہے؟
خاموشی کو اختیار کریں جب فائدے کی بات نہ ہو۔ دوسروں کے جذبات اور عزتِ نفس کا خیال رکھیں۔ مجلس میں ایسی گفتگو کریں جس سے علم، خیر یا اصلاح پیدا ہو۔
خاتمہ
ایک مسلمان کا وقت، زبان اور کردار اس کی امانت ہیں۔ لغو اور بےہودہ باتوں سے بچنا نہ صرف دین کا تقاضا ہے بلکہ دنیاوی کامیابی کا ذریعہ بھی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زبان، مجلس، اور خیالات کو پاکیزہ رکھیں۔ اگر ہم اپنی زبان پر قابو پا لیں تو بہت سے گناہوں سے بچ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے. آمین یا رب العامین ۔
تبصرہ لکھیے