احمد کراچی شہر کے مضافات میں بسنے والی ایک بستی کا مکین تھا۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندان کا چشم و چراغ تھا۔ کرائے کے مکان میں رہتے ہوئے، نجی کمپنی میں ملازمت کرتے ہوئے، آگے بڑھنے کے لیے پڑھنے کی لگن اور معاشرے میں اپنی حیثیت کے مطابق ایک پہچان احمد کا بھی خواب تھا۔
اس خواب کی تعبیر کے لیے احمد کئی برس سے تگ و دو کر رہا تھا۔ ملازمت کے ساتھ پڑھائی بھی جاری رکھے ہوئے تھا۔ مختلف جگہ ملازمت کرتے ہوئے تجربہ تو کافی ہو چکا تھا لیکن ڈگری نہ ہونے کے باعث ترقی کا سفر رکا ہوا تھا۔ اس سفر کو آگے بڑھانے کے لیے ایک سرکاری جامعہ( یونیورسٹی) میں شام کی شفٹ میں داخلہ لے رکھا تھا۔
آج بھی معمول کے مطابق ملازمت سے واپسی پر جامعہ چلا گیا تھا(احمد نے بہتر سفری سہولیات نہ ہونے کے باعث آمد و رفت کے لیے بائیک رکھی ہوئی تھی اور یہ تقریباً کراچی کے ہر گھر کا مسئلہ ہے) ۔
آخری سمسٹر کے امتحانات کی تاریخ آ چکی تھی اور احمد پرجوش تھا کہ بس اب اس کا خواب تعبیر پانے والا ہے۔ جامعہ میں آج اس کی بہت اچھی پریزینٹیشن ہوئی تھی۔ وہ خوشی خوشی گھر جانے کے لیے نکلا۔ ابھی جامعہ سے نکلا ہی تھا کہ گھر سے بہن کی کال آگئی کہ بھائی کہاں ہو؟ کھانا کھاؤ گے؟ امی پوچھ رہی ہیں(کراچی میں چوں کہ گیس کی بھی ”لوڈ شیڈنگ“ ہوتی ہے تو کھانا بنا کر رکھنا پڑتا ہے)۔ احمد نے کہا میں نکل گیا ہوں۔ایک گھنٹے تک گھر پہنچ جاؤں گا اور کھانا گھر آ کر ہی کھاؤں گا۔
شاہراہِ فیصل پر آج معمول سے ہٹ کر ٹریفک سست تھا۔ عموماً کارساز تک یا ڈرگ روڈ تک ایسا ہوتا تھا لیکن آج کارساز پر بھی یہی حال تھا اور ڈرگ روڈ پر بھی۔ احمد دیر ہونے کی وجہ سے، کچھ گرمی کے موسم کی وجہ سے اور پھر سارے دن کی تھکن کے باعث جھلاہٹ کا شکار ہو رہا تھا۔ ٹریفک کھچوے کی رفتار سے بھی کم رفتار میں چل رہی تھی۔ احمد اگر چہ بائیک پر تھا لیکن ایئرپورٹ تک آتے آتے اس کو بھی ایک گھنٹہ زیادہ لگ چکا تھا۔ وہ جس نے بہن کو بتایا تھا کہ 10 بجے تک گھر پہنچ جاؤں گا، وہ دس بجے تک ابھی ٹریفک جام میں پھنسا ہوا تھا۔
ایئرپورٹ کے قریب پہنچا تو پتا چلا کہ آج ان کے شہر اور صوبے پر برسر اقتدار پارٹی کے سربراہ غیر معمولی سفارت کاری کا مظاہرہ کر کے واپس آ رہے ہیں اس لیے راستہ بند ہے احمد کی جھلاہٹ غصے میں بدل چکی تھی۔ وہ راستہ بند کرنے والوں کو بددعائیں دیتا اور برا بھلا کہتا آگے بڑھ گیا۔ تھوڑا سفر طے کر کے اس کی جھلاہٹ اور غصے کی کیفیت رفو ہو چکی تھی۔ اب وہ معمول کے مطابق بائیک چلا رہا تھا۔ وہ جیسے جیسے گھر کے قریب پہنچ رہا تھا ویسے ویسے اس کا سکون بڑھتا جا رہا تھا۔ اب وہ نیشنل ہائی وے پر آ چکا تھا۔ نیشنل ہائی وے پر بڑی گاڑیوں کی آمد و رفت ہر وقت رہتی ہے۔ کئی کئی ورکشاپس لب سڑک کھلی ہوئی ہیں۔
اکثر سڑک پر بھی ٹرالر اور ٹینکر پارک کیے جاتے ہیں۔ اسی بے ہنگم ٹریفک میں اور بغیر حفاظتی انتظامات اور اندھیری نیشنل ہائی وے پر احمد کا سفر جاری تھا کہ اچانک اس کی بائیک پھسلی اور گھسٹتی ہوئی دور تک چلی گئی۔ سڑک پر آئل گرا ہوا تھا جس کی وجہ سے احمد کی بائیک پھسل گئی تھی۔ احمد جب تک اس اچانک پڑنے والی افتاد سے سنبھلتا پیچھے سے آتے ایک تیز رفتار ٹرالر نے اس کو بائیک سمیت کچل دیا۔ٹریفک رک گیا۔ لوگ احمد کو سنبھالنے اور ایمبولینس کو بلانے لگے۔ احمد کی تلاشی لینے پر موبائل نکلا اور آخری نمبر پر کال کی گئی جو احمد کی بہن نے کی تھی۔ اس پر اطلاع دی گئی۔
گھر میں انتظار کی سولی پر لٹکی ماں، کھانے کے دسترخوان پر انتظار کرتی بہن، جھکی کمر اور بیماریوں کا پتلے بنے باپ پر یہ خبر آسمانی بجلی کی مانند گری جو پل ہی پل میں انسانوں اور جانوروں کو لقمہ اجل بنا کر راکھ کر دیتی ہے۔احمد کے خواب کراچی کی سڑک پر ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گئے۔ باپ کی کمر مزید جھک گئی، ماں کا انتظار کبھی ختم نہ ہوا اور بہن پر گھر کو چلانے کا مزید بوجھ بڑھ گیا۔ کچھ نہ بدلا تو سترہ سال سے مسلسل حکومت کرنے والوں کا رقص نہ بدلا، کراچی کے حالات نہ بدلے، یہ نہ پہلا احمد تھا نہ آخری۔ اس شہر میں روزانہ کئی احمد سڑکوں پر خون میں لت پت پڑے نظر آتے ہیں۔
سڑکیں اول تو بنتی نہیں ہیں، بن جائیں تو بھتہ خوری کی نذر ہو جاتی ہیں۔ یہاں پبلک ٹرانسپورٹ نہیں چلائی جاتی کہ احمد جیسے نوجوان بائیک کی رسکی سواری کو چھوڑ کر آرام دہ اور کم خرچ سفر کر سکیں۔ ہاں سڑک پر سائرن اور ہارن بجاتی گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ضرور ہوتا ہے۔ احمد کے والدین اور بہن بھائی احمد کی لاش پر نوحہ کناں نہیں ہیں بلکہ اس شہر کراچی کی بے بسی اور لاچارگی پر نوحہ کناں ہیں، جب کہ اس پر دہائیوں سے حکومت کرنے والے حاکم رقص کناں ہیں، ان کی بلا سے کوئی احمد جائے یا زید جائے۔ کسی کو سڑک پر ٹینکر نگل لے یا کسی ڈاکو کی گولی جان اور مال لوٹ لے۔
تبصرہ لکھیے