ہوم << آزمائش، فنا سے بقا تک کا راستہ - خدیجہ طیب

آزمائش، فنا سے بقا تک کا راستہ - خدیجہ طیب

"ابتلاء" عربی زبان کا ایک گہرا، پرت دار اور بامعنی لفظ ہے۔ یہ لفظ "بَلَا" سے ماخوذ ہے، جس کا مفہوم ہے: کسی کو کسی کیفیت سے گزار کر اس کی اصل حقیقت کو نمایاں کرنا۔ یعنی ابتلاء صرف دکھ نہیں، ایک انکشاف ہے — انسان کی چھپی ہوئی سچائی کا، اس کے صبر، اس کی نیت، اس کے توکل اور اس کی روح کی گہرائی کا۔

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر اس لفظ کو استعمال کیا ہے تاکہ انسان یہ سمجھے کہ وہ دنیا میں صرف آرام کے لیے نہیں، بلکہ جانچے جانے کے لیے بھی آیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
"وَإِذِ ٱبْتَلَىٰٓ إِبْرَٰهِـۧمَ رَبُّهُۥ بِكَلِمَـٰتٍ"
"اور جب ابراہیمؑ کو اس کے رب نے بعض کلمات کے ذریعے آزمایا." (البقرہ: 124)

یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ ابتلاء صرف سزا یا تکلیف نہیں ہوتی، بلکہ وہ ایک تربیت ہوتی ہےعظمت کے لیے۔ جس طرح سونا آگ میں تپ کر خالص ہوتا ہے، ویسے ہی مومن ابتلاء کی آگ میں تپ کر رب کے قریب ہوتا ہے. زندگی ایک مسلسل سفر ہے۔ ایک ایسا سفر جو کبھی پھولوں سے بھرا محسوس ہوتا ہے، اور کبھی ایسے پتھروں سے جس پر چلنا روح کو زخمی کر دیتا ہے۔ مگر انہی پتھروں کے درمیان ایک دروازہ کھلتا ہے آزمائش کا۔ ایک ایسا دروازہ جو بظاہر سخت، تنگ اور سنسان دکھائی دیتا ہے، مگر جس کے پار وہ قرب چھپا ہوتا ہے جو الفاظ سے نہیں، صرف دل کی شکستگی سے سمجھا جا سکتا ہے۔

آزمائش ایک ایسی کیفیت ہے جس میں انسان بکھرتا نہیں، اصل میں نکھرتا ہے۔ وہ لمحہ جب دل ٹوٹتا ہے، دعائیں رُک جاتی ہیں، اور روح خود اپنے اندر ڈھونڈنے لگتی ہے کہ آخر کہاں ہے وہ خدا، جس سے ہم نے وفا کی، جس سے مانگا، اور جو ہمیں دیکھ رہا ہے۔ یہی لمحہ اصل امتحان ہوتا ہے۔ قرآن کہتا ہے:
"کیا لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ صرف یہ کہنے سے کہ 'ہم ایمان لائے'، وہ چھوڑ دیے جائیں گے اور آزمایا نہ جائے گا؟" (العنکبوت: 2)

یہ آیت ایمان کے دعوے کو حقیقت میں بدلنے کی دعوت ہے۔ کیونکہ آزمائش صرف ایک حادثہ نہیں ہوتی، وہ ایک آئینہ ہے جس میں انسان اپنے باطن کو دیکھتا ہے۔ وہ دکھ جسے دنیا صرف مصیبت کہتی ہے، مومن کے لیے وہ خاص لمحہ بن جاتا ہے جب دل دنیا سے کٹتا ہے اور اللہ سے جڑنے لگتا ہے۔ جب ہر چیز چھن جائے اور پھر بھی دل مطمئن رہے، تو یہی وہ دل ہوتا ہے جو رب کے قریب ہے۔

آزمائش کا رنگ ہمیشہ سیاہ نہیں ہوتا۔ بعض اوقات یہ چمکتی ہوئی آسائشوں کے پردے میں آتی ہے۔ شہرت، دولت، صحت، خوبصورتی، محبت — سب کچھ عطا ہو، مگر اندر روح میں خالی پن ہو، تب بھی انسان آزمائش میں ہے۔ قرآن فرماتا ہے:
"ہم تمہیں بھلائی اور برائی دونوں سے آزماتے ہیں۔" (الانبیاء: 35)

یعنی اللہ صرف دکھ سے نہیں، راحت سے بھی پرکھتا ہے۔ جس کی راحت اسے غافل کر دے، وہ آزمائش ہار گیا۔ جس کا دکھ اسے جھکا دے، وہ کامیاب ہو گیا۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے: "مصیبت مومن کے لیے امتحان ہے، اور فاسق کے لیے عذاب۔" یہ قول ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہر دکھ برا نہیں، اور ہر خوشی کامیابی نہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ دکھ نے ہمیں کہاں پہنچایا، اور خوشی نے ہمیں کہاں چھوڑا۔

جب آزمائش آتی ہے تو اکثر دل میں سوال اُٹھتا ہے کہ یہ محبت کی نشانی ہے یا سزا؟ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: "سب سے زیادہ آزمائشیں انبیاء پر آتی ہیں، پھر ان پر جو ان کے بعد اللہ کو زیادہ محبوب ہوتے ہیں۔" (ترمذی)
یعنی آزمائش محض آزمائش نہیں، یہ محبت کی چھپی ہوئی زبان ہے۔ ایک رازدار اشارہ جو کہتا ہے: "آ، خود کو میرے حوالے کر دے۔" جب انسان اپنی چاہت چھوڑ کر اللہ کی رضا پر راضی ہو جائے، تو وہ آزمائش کی پہلی سیڑھی پر چڑھ چکا ہوتا ہے۔

آزمائشیں کئی قسم کی ہوتی ہیں۔ کچھ وہ جو باہر نظر آتی ہیں — بیماری، غربت، تنہائی۔ اور کچھ وہ جو اندر ہی اندر خاموشی سے جلاتی ہیں — ناپوری چاہت، بےنام اداسی، اور مسلسل بےسکونی۔ مگر سب آزمائشوں میں ایک بات مشترک ہوتی ہے: وہ تمہیں تم سے نکال کر رب کی طرف لے جاتی ہیں، اگر تم نے اُن کے سامنے جھکنا سیکھ لیا۔

عورت کی آزمائش، اکثر الفاظ سے ماورا ہوتی ہے۔ وہ گھر کے در و دیوار میں، بچوں کی مسکراہٹوں میں، خاموش راتوں میں اور چھپ کر بہائے گئے آنسوؤں میں پلتی ہے۔ عورت جب صبر کرتی ہے تو وہ صرف اپنے لیے نہیں، آنے والی نسلوں کے لیے صبر کا چشمہ چھوڑ جاتی ہے۔ اس کی دعا صرف مانگنے نہیں، پیدا کرنے والی ہوتی ہے۔

آزمائش کا اصل کمال تب سامنے آتا ہے جب انسان فنا کو بقا سمجھنے لگے۔ جب وہ یہ جان لے کہ ٹوٹنے میں ایک خاص حسن ہے۔ جو شے فنا ہوتی ہے، وہی دل کو حقیقی طور پر خالی کر دیتی ہے، اور وہی خالی دل اللہ کے قرب کے قابل ہوتا ہے۔ آزمائش تمہیں یہ سکھاتی ہے کہ تمہاری اصلی پہچان دنیا میں نہیں، اس خالق کے قرب میں ہے جو تمہیں تم سے زیادہ جانتا ہے۔

ہمیں سوچنا ہوگا کہ جب وقت ٹھہر جائے، حالات جمود کا شکار ہو جائیں، اور اندر سب کچھ ساکت ہو جائے، تو ہم کیا کرتے ہیں؟ شکوہ؟ بدگمانی؟ یا خاموشی کے ساتھ جھک جانا؟
وہ لوگ جو آزمائش میں خاموش رہتے ہیں، دعا نہیں چھوڑتے، اور رب سے اُمید باندھے رکھتے ہیں — وہی اصل میں آزمائش میں کامیاب ہوتے ہیں۔ وہ رب کی نگاہ میں خاص ہو جاتے ہیں، کیونکہ وہ دکھ میں بھی رب کو نہیں چھوڑتے۔

آخرکار، آزمائش نہ تو آغاز ہے نہ اختتام۔ یہ ایک دروازہ ہے — رب کی طرف۔ ایک ایسا دروازہ جس کے دوسری طرف وہ سکون ہے جس کی تم نے کبھی دعا بھی نہیں مانگی ہوگی۔ آزمائش انسان کو اس کی روح کی گہرائیوں تک لے جاتی ہے، اور اگر وہ جھک جائے، تو اللہ اسے اٹھاتا ہے — اتنا اونچا، کہ دنیا بھی حیران ہوتی ہے، اور بندہ خود بھی۔آزمائش، اللہ کی طرف سے ایک دعوت ہے:
"اگر سب کچھ چھن جائے، اور تم میرا دامن تھامے رہو، تو سمجھو تم نے سب کچھ پا لیا۔"

بہت دیر سے پتہ چلا کہ
خواہش تو صرف آرائش ہے
وقت کے ایک لمحے میں قید وہ پا لینے کا جذبہ
صدیوں تھکا تا ہے
بہت دیر سے پتہ چلا
کہ پا لینا، محض حاصل کرنے کا نام نہیں
یہ تو سفرناتمام کا انجام ہے
اس وقت کو کھو دینے کا نام
جو تمنا کی تپش میں جل گیا
بہت دیر سے پتہ چلا
کہ پا لینے کے سفر میں اصل کھو گیا
اور پایا بھی کیا؟
جو کچھ بھی تھا، محض مایا تھا
بہت دیر سے پتہ چلا
کہ کھونا ہی دراصل پانا ہے