ہوم << الدّرعیہ سے الرّیاض تک (سفرنامہ نجدوحجاز 34) عبیداللہ کیہر

الدّرعیہ سے الرّیاض تک (سفرنامہ نجدوحجاز 34) عبیداللہ کیہر

ریاض میں آج رات کا کھانا میرے یونیورسٹی فیلو ریحان رشید صدیقی کی طرف سے تھا…… یعنی ابراہیم صدیقی، بلال صدیقی اور معروف صدیقی کے بعد ریاض میں میرا چوتھا ”صدیقی“ میزبان۔ ریاض میں میرے دو کلاس فیلو رہتے ہیں، میکینکل انجینئر زبیر میر اور میکینکل انجینئر ریحان رشید۔ پچھلے سال جب میں اپنی اہلیہ کے ساتھ ریاض آیا تھا تو پہلے ہی دن زبیر میر کے گھر ہمارا عشائیہ ہوا تھا …… اور آج ریحان کی طرف سے کھانا تھا، جس میں زبیر میر کو بھی آنا تھا۔

مغرب کے بعد ریحان میرے ہوٹل آ گیا اور ہم دونوں ریاض کے معروف ریسٹورنٹ ”مندی الریاض“ پہنچ گئے۔ زبیر بھی وہیں آ گیا۔ یہ ایک بڑا سجا بنا اور خوبصورت ریسٹورنٹ تھا۔ اس کے مرکزی ہال کی چھت تیس چالیس فٹ بلند ہوگی۔ اتنی اونچی چھت والی عمارتیں کم ہی دیکھی ہیں۔ لگتا تھا کسی جدید ایئرپورٹ میں آ گئے ہوں۔ ہم نے ہال کے بائیں گوشے میں ایک ٹیبل سنبھال لی اور آرڈر دے کر گپ شپ کرنے لگے۔

زبیر میر کا تعلق کراچی کے علاقے گلبرگ سے ہے اور ریحان رشید کا کراچی میں میرے ہی محلے رفاہِ عام سے۔ ریحان سے آج بڑے عرصے بعد ملاقات ہوئی، کوئی پچیس تیس سال بعد۔ اس دوران ہم ایک دوسرے کو بس واٹس ایپ اور فیس بک پر ہی دیکھتے آئے تھے۔ ابھی ہم باتیں ہی کر رہے تھے کہ ایک بنگالی یا بھارتی شخص ہوٹل میں داخل ہوا اور سیدھا ہماری طرف لپکا۔ اس نے اپنے ہاتھ میں کچھ ہلکی کوالٹی کے مردانہ پرس پکڑے ہوئے تھے۔ ٹوٹی پھوٹی اردو بولتے ہوئے اس نے یہ ظاہر کیا جیسے وہ غربت اور بیروزگاری سے تنگ آ کر یہ چیزیں بیچ رہا ہے۔ ہم نے جب یہ پرس لینے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی تو وہ سیدھا سیدھا بھیک مانگنے پر آ گیا۔ ہوٹل کا اسٹاف بھی یہ تماشا دیکھ رہا تھا، لیکن نہ کسی نے اسے یہاں بھیک مانگنے سے منع کیا اور نہ ہی ریحان اور زبیر ہی اس پر ناراض ہوئے۔ میرے لئے یہ شہر ریاض کا ایک عوامی روپ تھا۔ ہمارے ملک میں اتنے عالیشان ہوٹل میں کوئی مانگنے والا داخل ہونے کا تصور ہی نہیں کر سکتا۔
مندی الریاض کی مندی کھا کر ہم ہر قسم کی مندی بھول گئے۔ پھر وہاں دیر تک گپ شپ لگا کر رخصت ہوئے۔ واپسی میں زبیر نے مجھے ہوٹل چھوڑ دیا اور یوں ریاض میں میرا دوسرا دن تمام ہوا۔

میرے ہوٹل فندق حیات الریاض میں ناشتہ کمپلی مینٹری تھا، چنانچہ اگلی صبح میں وقت پر نیچے لابی میں پہنچ گیا جہاں بوفے میں ناشتے کے عمدہ لوازمات سجے ہوئے تھے۔ ناشتہ سیکشن کا منیجر ایپرن پہنے ہوئے ایک ہم جیسا ہی ہندوستانی، پاکستانی یا بنگلہ دیشی تھا۔ میرے علاوہ کئی اور لوگ بھی یہاں ناشتے کیلئے جمع تھے جو عرب یا یورپین لگتے تھے، پاکستانی میں اکیلا ہی تھا۔ جب میں ناشتہ لینے لگا تو منیجر نے مجھے غور سے دیکھا، پھر میرے قریب آ کر سرگوشی میں مجھ سے پوچھا کہ آپ کا روم نمبر کیا ہے؟…… میں نے اسے اردو میں ہی جواب دیا اور اپنے کمرے کا نمبر بتایا تو وہ چلا گیا۔ اس کا یوں صرف مجھ سے ہی کمرہ نمبر پوچھنا مجھے بالکل اچھا نہیں لگا۔

ناشتہ کر کے فارغ ہوا ہی ہونگا کہ بھائی معروف غنی کا فون آ گیا کہ دوپہر کا کھانا ساتھ کھائیں گے۔ چنانچہ میں کمرے میں آ گیا اور کچھ دیر تک فیس بک دیکھتا رہا۔ ظہر کی نماز ہوٹل سے باہر نکل کر قریب ہی ایک گلی میں موجود چھوٹی سی مسجد میں جا کر ادا کی، جو اتنی چھوٹی بھی نہیں تھی، بس ہماری پاکستانی مسجدوں جیسی ہی تھی۔ لیکن سعودی عرب میں مسجدیں چونکہ عام طور پر بڑی بڑی، بلند و بالا اور عالیشان ہوتی ہیں، اس لئے یہ ان کے مقابلے میں نہ صرف بہت چھوٹی لگی، بلکہ کچھ غیر منظم اور غریب سی بھی۔ وضو خانے میں ٹونٹیاں بھی ٹوٹی پھوٹی اورخراب، اور صفوں پر قالین بھی سستے والے۔ یہاں نماز پڑھنے والے بھی مجھے سیدھے سادے غریب سے محنت کش لگے۔

نماز پڑھ کر واپس آیا تو کچھ ہی دیر میں معروف بھائی پہنچ گئے۔ کھانا تو ہم نے کسی پاکستانی ہوٹل میں جا کر کھایا، البتہ چائے پلانے وہ اپنے گھر ”الاسکان“ لے گئے۔ وہیں بیٹھ کر شام میں ”الدرعیہ“ جانے کا پروگرام بنایا۔ ریاض شہر کے مضافات میں واقع الدرعیہ کا تاریخی قصبہ، جہاں سے تین سو سال پہلے آلِ سعود کی تحریک کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں نجد و حجاز میں سعودی حکومت وجود میں آئی۔اب وہ پورا علاقہ ایک تاریخی و ثقافتی سیر گاہ بنا دیا گیا ہے۔
کھانا کھا کے ہم ہوٹل واپس آ گئے۔ معروف بھائی مجھے یہاں چھوڑ کر اپنے آفس چلے گئے اور طے یہ ہوا کہ میں شام کو ٹیکسی کر کے ان کے آفس پہنچ جاؤں گا جہاں سے ہم الدرعیہ چلے جائیں گے۔ میں نے یہ درمیانی وقت ہوٹل میں ہی گزارا اور عصر کی نماز پڑھ کر باہر نکل آیا۔ ہوٹل کے قریب سے ہی ایک پٹھان ٹیکسی والا مل گیا۔ معروف بھائی کا آفس ”سلیمانیہ“ میں تھا۔ میں نے ڈرائیور کو لوکیشن دی اور ہم ریاض کی ٹریفک سے بھری سڑکوں پر چل پڑے۔

ریاض دار الحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کا سب سے بڑا شہر بھی ہے۔یہ جزیرہ نمائے عرب کا بھی سب سے بڑا شہر ہے۔ سطح سمندر سے دو ہزار فٹ کی بلندی پر یہ سطح ِ مرتفع نجد کے مشرقی حصے میں صحرائے نفود کے درمیان واقع ہے۔یہاں ہر سال تقریباً پچاس لاکھ سیاح آتے ہیں جو اسے دنیا کا انتالیسواں اور مشرق وسطیٰ کا چھٹا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا شہر بناتے ہیں۔ ریاض کی آبادی 2022ء میں 70 لاکھ تھی، جو اسے سعودی عرب کا سب سے زیادہ گنجان آباد، مشرق وسطیٰ میں تیسرا اور ایشیاء کا 38 واں سب سے زیادہ آبادی والا شہر بناتی ہے۔
تاریخی روایات کے مطابق 1745ء میں ایک شخص ”دہام بن دواس بن عبداللہ الشعلان“ نے یہاں ایک قصبے میں کچی اینٹوں کا محل تعمیر کر کے قصبے کے گرد چار دیوار بنائی تھی اور اسے ”الریاض“ یعنی باغ نام دیا، کیونکہ یہاں نخلستانی باغ ہوا کرتے تھے۔ صحرائے نجد کے وسط میں یہ خطہ چونکہ برساتی ندیوں سے سیراب ہوتا ہے اور یہاں کئی علاقوں میں زیر زمین پانی بھی مل جاتا ہے، اس لئے یہ اپنی کھجور اور نخلستان و باغات کی وجہ سے مشہور تھا۔ 1744ء میں درعیہ کے امیر محمد بن سعود نے دہام بن دواس سے ریاض لے لیا اور اسے اپنی ریاست میں شامل کر لیا۔ اٹھارہویں صدی عیسوی تک ریاض سعودی ریاست کا حصہ تو تھا، لیکن دار الحکومت درعیہ ہی رہا۔

1745ء میں محمد بن سعود نے العُیینہ کے معروف عالم دین محمد بن عبد الوہاب کے ہاتھ پر بیعت کر کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کا عہد کیا اور کتاب و سنت کے طریقوں پہ چلنے پر آمادگی ظاہر کی۔ یہ محمد بن عبدالوہاب وہی ہیں جن سے سلفی اسلامی تحریک ِ وہابیت منسوب کی جاتی ہے۔ محمد بن عبد الوہاب کئی دینی کتابوں کے مصنف تھے جن میں ”کتاب التوحید“ سب سے زیادہ مشہور ہے۔ وہ نجد کے قصبے العیینہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کی اور پھر مزید حصول علم کیلئے شام، عراق اورترکی کا سفر بھی اختیار کیا۔ محمد بن عبد الوہاب سے اتحاد کے بعد محمد بن سعود نے ارد گرد کے علاقے کو ایک اسلامی ریاست کے تحت جمع کیا اور دارالحکومت درعیہ کے تحت پہلی سعودی ریاست قائم کی۔
1818ء میں ترکوں سے جنگ میں درعیہ برباد ہو گیا اور عثمانیوں کے زیر تحت دوسری سعودی ریاست کے پہلے امیر”ترکی بن عبداللہ“ مقرر کئے گئے۔ 1823ء میں ترکی بن عبداللہ نے درعیہ کو چھوڑ کر ریاض کو اپنا دارالحکومت منتخب کر لیا۔ 1834ء میں ترکی بن عبداللہ کے بڑے بیٹے فیصل نے دارالحکومت کا کنٹرول سنبھالا اور ترکوں سے بغاوت کی تو نجد پر حملہ کیا گیا اور فیصل کو قید کر کے قاہرہ لے جایا گیا۔ لیکن جیسے ہی مصر سلطنت عثمانیہ سے آزاد ہوا تو فیصل پانچ سال کی قید سے نکل کر نجد واپس آ گیا اور آلِ سعود کی حکومت کو مستحکم کرتے ہوئے 1865ء تک حکومت کی۔

1891ء میں دوسری سعودی ریاست کا زوال قبیلہ الرشید کے ہاتھوں ہوا جس نے شہر حائل میں رہتے ہوئے یہاں حکومت کی۔ قلعہ مصمک اسی دور کا ہے۔ اس دوران سعودی سربراہ عبدالرحمن بن فیصل اپنے خاندان کے ساتھ کویت میں جلاوطن رہے۔ البتہ ان کے بیٹے عبدالعزیز نے 1902ء میں نجد کی آبائی سلطنت کو دوبارہ حاصل کر لیا۔ ملک عبدالعزیز بن عبدالرحمن السعود نے ریاض ک نئے سرے سے تعمیر کیا اور 1932ء میں اسی دارالحکومت سے جدید سعودی عرب کی بنیاد ڈالی، البتہ سفارتی دارالخلافہ 1982ء تک جدہ میں رہا۔ شاہ عبدالعزیز کا انتقال 1953ء میں ہوا تو ان کے بیٹے سعود نے اقتدار سنبھالا۔ 1964ء میں شاہ سعود کے بھائی شاہ فیصل تخت نشین ہوئے اور1982ء میں شاہ فہد حکمراں بنے۔

جانشینی کایہ سلسلہ شاہ عبدالعزیز کے 35 بیٹوں میں سے ہے۔ ابن سعود کا یہ خاندان مملکت کے اہم عہدوں پر فائز ہے۔ سعودی ریاست کا سربراہ سعودی شاہی خاندان ”آلِ سعود“ کا سربراہ بھی ہوتا ہے اور”صاحب الجلاجہ“ کہلاتا ہے۔ 1986ء میں ان کا لقب صاحب الجلاجہ سے تبدیل کر کے ”خادم الحرمین الشریفین“ رکھ دیا گیا۔ یہ اصطلاح مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے معاملات پر اختیار کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن کو سعودی عرب کا پہلا بادشاہ کہا جاتا ہے، جو عرب علاقوں کو متحد کرنے کے بعد ستمبر 1932ء میں مملکت ِ سعودی عرب پر تخت نشین ہوئے تھے۔1933ء میں انہوں نے اپنے بڑے بیٹے سعود بن عبدالعزیز کو ولی عہد مقرر کیا۔ عبد العزیز 1953ء میں طائف میں اپنی وفات تک حکومت کرتے رہے۔شاہ عبد العزیز کی وفات کے بعد ان کے بیٹے شاہ سعود بن عبدالعزیز نے 1953ء میں بادشاہ کی حیثیت سے بیعت کی۔ 1964ء میں شاہ سعود بیمار ہو گئے اور حکومتی امور چلانے کے قابل نہیں رہے، جس کی وجہ سے 1965ء میں ان کی برطرفی اور ان کی جگہ ان کے بھائی فیصل کی تقرری کی گئی۔ شاہ فیصل کے دور حکومت میں عرب اسرائیل تنازعات ہوئے۔ وہ 1975ء میں ایک شہزادے کے ہاتھوں شہید کر دیئے گئے۔

1975ء میں شاہ خالد بن عبدالعزیز نے اقتدار سنبھالا۔ شاہ خالد کا انتقال طائف میں 1982ء میں ہوا۔ 1982ء میں شاہ فہد بن عبدالعزیز نے اقتدار سنبھالا۔تقریباً 24 سال حکومت کرنے کے بعد 2005ء میں ان کا انتقال ہوا۔ 2005ء میں شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے اقتدار سنبھالا۔ ان کے دور میں مختلف شعبوں نے ترقی کی، خصوصاً مسجدالحرام اور مسجد نبوی کی توسیع۔ شاہ عبد اللہ کی حکومت 2015ء تک جاری رہی۔جنوری 2015ء میں سلمان بن عبدالعزیز بادشاہ بنے اور انہوں نے 2017ء میں اپنے بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان کو اپنا ولی عہد مقرر کر دیا۔
سلطنت سعودیہ کے ساتھ ساتھ اس کا دارالحکومت ریاض بھی ایک مختصر قصبے سے ترقی کرتے ہوئے وسیع شہر کی شکل اختیار کر گیا۔ تاریخی ریاض دیواروں سے گھرا ہوا تھا جس میں ایک قصبہ اور ایک بازار تھا، جس کے چاروں طرف مساجد اور گھر تھے۔ اس کی دیواروں کے باہر کھجور کے درختوں کے باغات تھے۔ شہر کی ان قدیم دیواروں کے اندر ریاض کا پرانا قصبہ دو مربع کلومیٹر سے بھی کم تھا جبکہ آج کا ریاض 130 اضلاع پر مشتمل ہے۔اس دور کی باقیات میں سب سے نمایاں مسمک قلعہ اور اس کے دروازے کے ساتھ اصل دیوار کے کچھ حصے ہیں جن کی بحالی اور تعمیر نو کی گئی ہے۔ ان پرانی حدود میں مٹی کے اینٹوں کے روایتی گھر بھی موجود ہیں، لیکن وہ زیادہ تر خستہ حال ہیں۔ 1960ء تک جس ریاض کی آبادی صرف 50 ہزار تھی، وہ اب 45 لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ ماضی قریب کا یہ چھوٹا سا قصبہ آج دنیا کے بڑے شہروں میں شامل ہو چکا ہے۔

پٹھان ٹیکسی والا گپیں لگاتے ہوئے مجھے کچھ ہی دیر میں سلیمانیہ میں موبائلی آفس C12 تک لے آیا۔ میں نے معروف بھائی کو فون کیا تو وہ فوراً ہی آفس سے نکل آئے اور پھر ہم ان کی گاڑی میں بیٹھ کر الدرعیہ چل دیئے، جو یہاں سے خاصا دور تھا۔ ہم ریاض کی وسیع و عریض سڑکوں، بے تحاشا ٹریفک اور بلند و بالا عمارتوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے گھنٹہ بھر چلتے رہے، حتیٰ کہ الدرعیہ تک پہنچتے پہنچتے مغرب ہو گئی۔ بالآخر ہم آثارِ قدیمہ کی حیثیت سے تجدید کردہ نئے مگر غیر آباد الدرعیہ کی روشن بھول بھلیوں میں داخل ہوتے چلے گئے اور اس کے مرکزی قصبے الطریف پہنچ گئے۔
الدرعیہ آل سعود کا آبائی شہر ہے۔ یہ1744ء سے1818ء تک سعودی خاندان کا دارالحکومت رہا ہے۔ اس میں کئی قصبے اور دیہات شامل ہیں جو ایک نخلستانی خطے وادیئ حنیفہ میں واقع ہیں۔ آج کا الدرعیہ کئی تاریخی مقامات کا مجموعہ ہے، جن میں سب سے نمایاں قدیم شہر کے کھنڈرات ہیں۔ جنگ ِ یمامہ کا علاقہ العیینہ بھی اسی کی قرب و جوار میں ہے جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مسیلمہ کذاب سے جنگ ہوئی تھی۔ العیینہ میں جنگ ِ یمامہ میں شہید ہونے والے صحابہ کا قبرستان بھی ہے، جہاں میں پچھلے سال عبدالحامد کے ساتھ آیا تھا۔

الدرعیہ شہر 1446ء میں وادئ حنیفہ میں مانع بن ربیعہ المریدی نے آباد کیاتھا۔ آنے والی صدیوں میں جزیرہ نمائے عرب کے وسط میں یہ شہر رفتہ رفتہ ایک تہذیبی اور سیاسی مرکز میں تبدیل ہوا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے پہلی سعودی ریاست نے دیگر علاقوں کو متحد کرنا شروع کیا۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں یہ شہر علم و ثقافت کا مرکز رہا اور اسے ”گوہرِ نجد“ بھی کہا گیا۔ آلِ سعود کی ابتداء اسی مانع بن ربیعہ المریدی سے ہوئی تھی، جن کا خاندان پہلے خلیج ِ فارس کے ساحلوں کی طرف ہجرت کر گیا تھا اور وہاں انہوں نے ابقیق کے قریب الدروع نامی گاؤں آباد کیا تھا۔ پندرہویں صدی عیسوی کے وسط میں مانع بن ربیعہ حجر الیمامہ (موجودہ ریاض) کے امیر ابن ِ درع کی دعوت پر وادئ حنیفہ آیا۔ ابن ِ درع نے اسے وادئ حنیفہ میں ایک علاقہ دے دیا جسے مانع نے الدرعیہ کا نام دیا تھا۔
مانع بن ربیعہ کی اولاد کئی نسلوں تک الدرعیہ کی امارت سنبھالتی آئی۔ حتیٰ کہ یہ امارت آلِ مقرن تک آ پہنچی جن کی نسل میں محمد بن سعود بھی شامل ہیں۔ 1720ء میں سعود اوّل بن محمد بن مقرن اس کا جانشیں مقرر ہوا۔ 1725ء میں سعود اوّل انتقال کرگئے تو محمد بن سعود الدرعیہ کا امیر مقرر ہوا جو بعد میں پہلی سعودی مملکت کا پہلا سربراہ بنا۔

ہم جس جگہ رکے وہ الدرعیہ کا سب سے اہم قصبہ ”الطریف“ تھا۔ الطریف کو سعودی عرب کے اہم ترین سیاسی اور تاریخی مقامات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہ الدرعیہ کے خطے میں سعودی خاندان کے اولین دارالحکومت کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ آلِ سعود کا اصل گھر تھا اوران کا پہلا دارالحکومت تھا۔ الطریف کی بنیاد پندرہویں صدی میں نجدی طرزتعمیر پر رکھی گئی تھی۔ آج یہ قصبہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں بھی شامل ہے۔1818ء میں ترکوں سے جنگ کے بعد دارالحکومت ریاض منتقل ہوا تو پھر یہ علاقہ2000ء تک ویران رہا، حتیٰ کہ الدرعیہ اتھارٹی نے اسے ایک سیاحتی مرکز کے طور پر بحال کرنے کا آغاز کیا اور بالآخراسے ایک بین الاقوامی ثقافتی ورثے میں تبدیل کر دیا۔
ہم نے گاڑی پارکنگ میں کھڑی کی اور آگے بڑھ کر شیشوں سے بنے ایک بلند و بالا ایئر کنڈیشنڈ ہال میں داخل ہو گئے۔ الطریف کے قدیم شہر میں جانے کیلئے یہ داخلی گیٹ تھا۔ یہاں ہمارے استقبال کیلئے کئی انگلش بولنے والے خوش خصال عرب لڑکے اور لڑکیاں کھڑے تھے۔ الطریف کی معلومات اور داخلہ ٹکٹ بھی یہیں پر مل رہے تھے۔ 50 ریال فی کس، یعنی تقریباً 4000 روپے۔ ہم نے ٹکٹ خریدے اور داخلی گیٹ سے طریف شہر کے اندر آ گئے۔

سب سے پہلے تو یہاں ایک عالیشان مسجد میں نماز پڑھی اور پھر آگے کی طرف چل دیئے جہاں سوڈیم لائٹس کی تیز سنہری روشنیوں میں ہر طرف کھجور کے درخت سراٹھائے چمک رہے تھے۔ یہ قدیم و جدید عمارتوں کا ایک وسیع کمپلیکس تھا، جس کے نئے اور پرانے حصوں کے درمیان ایک نشیبی میدان کسی پہاڑی ندی کے پاٹ کی طرح پھیلا ہوا تھا۔ اس میدان میں جگہ جگہ پانی بھی پھیلا ہوا نظر آتا تھا اور کھجور کے جھنڈ بھی بکھرے ہوئے تھے۔ جدید اور قدیم حصوں کو ایک پل ملا رہا تھا۔ پل کے پار سینکڑوں سال قدیم شہر کے کھنڈرات نما درودیوار نظر آ رہے تھے، جنہیں تازہ لیپا پوتی کر کے جاذبِ نظر بنایا گیا تھا۔ ان پر پڑنے والی پیلی سوڈیم لائٹ روشنیاں انہیں مزید دلکش بنا رہی تھیں۔
پل عبور کرتے ہی بائیں طرف ایک طویل ہال تھا جہاں ایک چوڑی ایل ای ڈی اسکرین پر الطریف کی تعارفی دستاویزی فلم چل رہی تھی۔ ہال میں کھڑے عرب لڑکے اور لڑکیاں سیاحوں کو بریفنگ دے رہے تھے۔ ہمیں بھی ایک باحجاب عرب لڑکی نے عربی لہجے کی انگلش میں الدرعیہ، الطریف اور آلِ سعود کی مختصر تاریخ سے آگاہ کیا۔ہم یہاں سے آگے بڑھے اور الطریف کے سینکڑوں سال قدیم شہر کے اونچے نیچے گلی کوچوں میں داخل ہو گئے، جہاں سیاحوں سے زیادہ سیاحتی اہلکار لڑکے اور لڑکیاں گھوم رہے تھے۔

الطریف کے خاص خاص مقامات میں ثقافتی عجائب گھر، فوجی عجائب گھر، عربی النسل گھوڑوں کا عجائب گھر، سلویٰ محل، امیر مشاری بن سعود کامحل،امام عبداللہ بن سعود کا محل، الطریف کی بڑی جامع مسجد اور دیگر کئی مکانات اور حویلیاں تھیں۔ جن جگہوں پر ترکوں سے جنگ لڑی گئی تھی وہاں دیواروں میں چھپے اسپیکروں میں سے جنگ و جدل کے ساؤنڈ ایفیکٹس سنائی دے رہے تھے۔ گھوڑوں کے ہنہنانے، گولہ باری اور انسانی چیخ و پکار کی آوازوں سے اس دور کا ماحول تخلیق کیا گیا تھا۔ ہم خاصی دیر تک ان قدیم محلات اور گلی کوچوں میں گھومتے رہے اور یوں لگا جیسے کسی ٹائم مشین میں بیٹھ کر سینکڑوں سال پیچھے آ گئے ہوں۔
خاصی دیر تک گھوم پھر کے تھک ہار کر باہر نکلے اور وادئ حنیفہ کی ندی کو پل سے عبور کر کے فوڈ کورٹس ایریا میں آ گئے۔ یہاں عربی قہوہ اور کافی و آئسکریم سے لے کر ترک شاورما تک بہت کچھ مل رہاتھا۔ یہ معلوم کر کے بھی خوشی ہوئی کہ ہم نے جو پچاس پچاس ریال کے ٹکٹ خریدے تھے، ان کے بدلے یہاں کھانے پینے کی اشیاء لے سکتے تھے۔ یعنی وہ بھی ٹکٹ نہیں تھا بلکہ فوڈ واؤچر تھا۔ ہم نے پہلے عربی قہوہ پیا، پھر سلش نوش فرمایا اور اس کے بعد آئسکریم کھا کر الدرعیہ کی سیر مکمل کی۔ ایک سووینیئر شاپ پر سونے کی (یا سنہری) چمکتی دمکتی بندوقیں اور تلواریں دیکھ کر حیران ہوئے اور پھر الطریف سے باہر نکل آئے۔ یوں ہماری الدرعیہ کی سیر بھی مکمل ہوئی۔
٭٭٭

Comments

Avatar photo

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر اردو کے معروف ادیب، سیاح، سفرنامہ نگار، کالم نگار، فوٹو گرافر، اور ڈاکومینٹری فلم میکر ہیں۔ 16 کتابوں کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں عبید اللہ کیہر کی پہلی کتاب ”دریا دریا وادی وادی“ کمپیوٹر سی ڈی پر ایک انوکھے انداز میں شائع ہوئی جسے اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان نے ”اردو کی پہلی ڈیجیٹل کتاب“ کا نام دیا۔ روایتی انداز میں کاغذ پر ان کی پہلی کتاب ”سفر کہانیاں“ 2012ء میں شائع ہوئی۔

Click here to post a comment