ہوم << دعاؤں کی وہ وسعت کہاں گئی! ۔ تحریر آمنہ بتول

دعاؤں کی وہ وسعت کہاں گئی! ۔ تحریر آمنہ بتول

کبھی وہ زمانہ تھا جب دعاؤں کی ایک خوشبو ہوا میں بسی ہوتی تھی۔۔ایسی خوشبو جو کسی ایک انسان کے دل سے نکلتی تھی اور سارے جہاں کا احاطہ کر لیتی تھی
یعنی دعاؤں کا ایک الگ ہی ذائقہ ہوتا تھا ۔ایک وسعت، ایک کشادگی، اور ایک ایسا دل جو صرف اپنے لیے نہیں، سب کے لیے دھڑکتا تھا۔
لوگ یوں دعا مانگتے تھے: "یا اللّٰہ! جیسا تو نے مجھے کھلایا، ویسا سب کو کھلا، جیسا مجھے دیا ویسا سب کو دے۔"

یہ محض الفاظ نہ تھے، بلکہ ایک کائناتی شعور کا اظہار تھا ایسا شعور جس میں انسان خود کو پوری انسانیت کا حصہ سمجھتا تھا، اور دعا ایک اجتماعی خیر کا وسیلہ بنتی تھی۔
مگر جیسے جیسے وقت بدلا، دل چھوٹے ہو گئے، اور دعائیں بھی محدود ہونے لگیں۔ہم یونیورسل انسان سے خود غرض فرد بن گئے۔ اب دعاؤں میں "میں"کی گردان ہے۔ میری کامیابی، میری خوشی، میری شہرت کے سوا کچھ نہیں بچا۔خیر کی جگہ مقابلہ، شکر کی جگہ حسد، اور دعا کی جگہ تمناؤں نے لے لی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی نے کیا خوب کہا:
"آج اداس ہو یا کسی کو خوش دیکھ آئے ہو؟"
ہمیں اداسی بھی اب اس وقت ہلکی لگتی ہے جب کوئی اور ہم سے زیادہ پریشان دکھائی دے۔اور ہمیں تسلی اب صرف دوسروں کے زخم دیکھ کر آتی ہے۔یعنی کسی کی خوشی ہمارے لیئے اداسی کا سبب بن جاتی ہے ، یہی وہ مقام ہے جہاں دعا، جسے ایک مقدس رابطہ ہونا چاہیے تھا۔۔۔

مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہم ذاتی تو ہو گئے ہیں، مگر اصل میں ہم اپنے بھی نہیں رہے۔ ہم اپنی شناخت، اپنی دعائیں، اپنے جذبات سب کچھ بیرونی ساختوں کے حوالے کر چکے ہیں۔سوشل میڈیا کی خوش نما تصویریں، کامیابی کی مصنوعی تعریفیں، اور دوسروں کی نظروں میں بلند ہونے کی خواہش نے ہمیں خود سے بھی غافل کر دیا ہے۔
ہماری دعائیں اب صرف مادی دنیا کی چیزوں سے جڑی ہیں:"نوکری مل جائے"، "دوسرے سے بہتر بن جاؤں"، "میرے فالورز زیادہ ہوں" مگر روح کے لیے، دل کے سکون کے لیے، یا انسانیت کے بھلے کے لیے دعا شاید ہی نکلتی ہو۔ یعنی ہم اپنی دعاؤں کی اصل بھول گئے ہیں۔
وہ اصل جہاں دعا صرف مانگنا نہیں، سب کے لیے چاہنے کا عمل تھی۔جہاں دل صرف اپنے درد کے لیے نہیں، دوسروں کی آسانی کے لیے بھی روتا تھا۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم رکیں، جھانکیں، اور خود سے سوال کریں: کیا ہماری دعائیں صرف ہمارے لیے ہیں؟ یا ان میں وہ وسعت بھی ہے جو دوسروں کو احاطے میں لاتی ہے ،جس کو ہم جامعیت کہتے ہیں ۔