ہوم << 'طاقت کے بغیر امن صرف ایک سراب ہے'. سلمان احمد قریشی

'طاقت کے بغیر امن صرف ایک سراب ہے'. سلمان احمد قریشی

' حالیہ برسوں میں عالمی منظرنامہ مسلسل جنگوں اور کشیدگی کی لپیٹ میں رہا۔ روس اور یوکرین کے درمیان طویل اور خونی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی اسی دوران اسرائیل نے غزہ پر ظلم کی ایسی داستان رقم کی کہ انسانیت کانپ اٹھی۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحیت کا خواب دیکھا، مگر پاکستان کی پیشہ ور فوج نے نہ صرف بھرپور جواب دیا بلکہ چند گھنٹوں میں دشمن پسپائی پر مجبور ہو گیا۔اسی دوران اسرائیل نے ایران پر حملہ کر کے پورے مشرقِ وسطیٰ کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ جو خود کو دنیا کا ''مین آف دی پیس'' کہتے ہیں اسرائیل کے دستِ راست بن کر جنگ کا حصہ بن گے۔ بارہ دن تک دنیا کی سانسیں رکی رہیں، خوف کا ایک سایہ پوری انسانیت پر چھایا رہا، مگر بالآخر جنگ بندی ہوئی۔ اسرائیل کے ناقابل تسخیر دفاع کا طلسم ٹوٹاجبکہ ایران جانی نقصان کے باوجود سر بلند کھڑا رہا۔

اب جبکہ جنگ کے طبل بج چکے ہیں اور طاقت کے توازن کو ازسرنو ترتیب دیا جا رہا ہے۔ اسکے اثرات ہر خطہ پر ہونگے۔ عالمی افق پر تبدیلی کی ہوائیں چل رہی ہیں جن کی گھن گرج نے پرامن اقوام کے دل دہلا دیے۔ امن کے نغمے پسِ منظر میں دب گئے اور میزائلوں کی آوازیں عالمی اسٹیج پر گونجنے لگیں۔ایران اور اسرائیل جرات اور جارحیت کا ٹکراودنیا نے دیکھا۔اسرائیل نے جب ایران پر رات کی تاریکی میں بھرپور فضائی حملہ کیا تو مقصد صاف تھا ایرانی مزاحمت کو کچلنا اور خطے میں خوف کا سکہ جمانا۔ مگر ایران نے جھکنے کے بجائے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ تہران سے لے کر تبریز تک ایک ہی صدا گونجی''ہمیں سرنگوں ہونے کا سبق نہیں سکھایا گیا''۔

ایرانی قوم اور فوج نے چپ چاپ زخم سہے مگر جواب خاموش نہیں رہا۔ اسرائیل، عراق، شام اور قطر میں امریکی اڈے ایرانی میزائلوں کی زد میں آئے۔ اسرائیل میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئیں اثاثے تباہ ہوئیاور وہ ناقابل تسخیردفاعی سسٹم آئرن ڈوم بے بس دکھائی دیا۔ ایرانی تنصیبات کو نقصان پہنچا شہری جانوں کا زیاں ہوا مگر ایران کھڑا رہا۔ایران کی حالیہ جرات اچانک نہیں بلکہ دہائیوں کی آزمائشوں، پابندیوں اور تنہائیوں کا نتیجہ ہے۔ 1980 کی دہائی میں عراق کے ساتھ آٹھ سالہ طویل اور خونریز جنگ، جس میں امریکہ اور عرب ممالک صدام حسین کے پشت پر تھے نے ایران کو خود کفیل اور خودمختار بننے پر مجبور کیا۔
اس کے بعد ایران نے عسکری، نیوکلئر اور پراکسی فرنٹس پر اپنا نیٹ ورک قائم کیا۔ حزب اللہ، حوثی، اور عراقی ملیشیاؤں کے ذریعے ایک ایسا علاقائی مزاحمتی بلاک تشکیل دیا جو آج اسرائیل، سعودی عرب اور امریکہ کی آنکھ میں کھٹکتا ہے۔

ایران بھارت تعلقات ماضی میں تیل، بندرگاہوں (چابہار)، اور تجارتی راہداریوں تک محدود رہے مگر حالیہ جنگ میں بھارت کا کردار منافقانہ رہا۔ نہ کسی قسم کی اخلاقی ہمدردی، نہ ہی اسرائیلی جارحیت کی مذمت۔ بھارت ایک بار پھر اسرائیلی مفادات کا خاموش حلیف بنا۔ جنگ کے دنوں میں جب تہران جل رہا تھا، نئی دہلی میں سفارتی سکوت چھایا رہا۔یہی بھارت جب پاکستان کے خلاف زہریلے بیانات دیتا ہے تو اس کی زبان میں“امن”کا لفظ نہیں ہوتا۔ اس موقع پر ایران کو بھی یہ تلخ حقیقت سمجھ آ گئی کہ بھارت صرف مفاد کا دوست ہے، مصیبت میں نہیں۔ایران پر حملے کے بعد جو سب سے پہلے میدان میں آیا وہ پاکستان تھا۔ پاکستان نے نہ صرف اخلاقی بلکہ سفارتی سطح پر بھی ایران کی حمایت کی بلکہ پاکستانی دفترِ خارجہ نے دو ٹوک الفاظ میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی۔ سوشل میڈیا پر“ایران زندہ باد ”کے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگے، تہران کی فضاؤں میں بھی“تشکر پاکستان”کے نعرے سنائی دیے۔پاکستانی عوام نے جس طرح اس جنگ کو محسوس کیا، وہ غیرمعمولی تھا۔ ایران کی مزاحمت کے دوران عوامی حمایت، سوشل میڈیا کمپین، میمز اور دانشورانہ مکالمے نے ثابت کیا کہ مسلم دنیا کا ضمیر ابھی زندہ ہے۔ پاکستان میں ایرانی پرچم کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کی ریلیاں ہوئیں اور سیاسی و مذہبی قیادت نے کھل کر حمایت کا اعلان کیا۔

جنگ کے انہی دنوں میں ایک میم نے غیر معمولی شہرت حاصل کی جس میں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کہتے نظر آئے''مجھے تو کوئی جنگ کی دعوت ہی نہیں دے رہا... ایک دو میزائل ہمارے بھی چلواؤ، ان پر‘عید مبارک’تو نہیں لکھایہ اصلی ہیں۔''
یہ بظاہر ایک مزاحیہ جملہ تھا مگر اس میں ایک پوری قومی سوچ پوشیدہ تھی،طاقتور وہی ہوتا ہے جس سے کوئی پنگا نہ لے۔شمالی کوریا کی مزاحمتی حکمتِ عملی اور اس کی خودساختہ تنہائی نے اسے اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں کوئی اسے آنکھ نہیں دکھاتا۔ایک ناقابلِ نظرانداز مثال شمالی کوریا، جس کی آبادی تقریباً 2.6 کروڑ ہے اور اسکے فوجی دستے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہوتے ہیں کیونکہ شمالی کوریا نے“سونگون”پالیسی یعنی“فوجی اولیت”کو اپنی ریاستی نظریے کا حصہ بنایا۔ یہ وہی ملک ہے جس نے کورین جنگ میں امریکہ کو طویل جنگ میں الجھایا۔چین سے اتحاد کیا اور آج اپنی میزائل ٹیکنالوجی کے باعث جوہری طاقت بن کر ابھرا۔ایران اور شمالی کوریا دونوں ایک بات پر متفق ہیں دفاع کمزور ہو تو کوئی ریاست باقی نہیں رہتی۔
قارئین کرام! نئی دنیا کا ظہور ہورہا ہے۔روس، یوکرین، اسرائیل،غزہ، ایران،اسرائیل اور چین تائیوان جیسے تناؤ اب نئی سرد جنگ کی بنیادیں رکھ رہے ہیں۔بھارت اپنی روش بدلنے پر تیار نہیں۔ مسئلہ کشمیر ایک خطرناک تنازعہ کی صورت میں موجود ہے۔ ایسے میں پاکستان کو اب دفاع، ٹیکنالوجی، اور علاقائی اتحاد کی بنیاد پر آگے بڑھتے رہنا ہوگا۔معیشت کی بہتری تب ممکن ہے جب بقا یقینی ہو۔صرف انفراسٹرکچر، موٹرویز کی تعمیر اور نعرے طاقت نہیں ہوسکتے اگر دفاعی ڈھانچہ کمزور ہو تو دشمن کے ایک وار میں سب خاک ہو جاتا ہے۔دنیا میں وہی ملک سلامت رہتا ہے جو لڑنے کا حوصلہ، دفاعی طاقت، اور تنہائی میں بھی ڈٹے رہنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ ایران نے خون دیا، مگر سر نہیں جھکایا۔ شمالی کوریا نے دنیا کو مزاحمت کا ہنر سکھایا۔ اور پاکستان نے ایک مرتبہ پھر بھارت پر دفاعی اور اخلاقی برتری ثابت کی۔ پاکستان عالمی برادری میں امن کی خواہش کے ساتھ امتِ مسلمہ سے وفاداری کا ثبوت دیا۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سب ایک ہی نعرہ بلند کریں
''امن چاہتے ہیں، مگر کمزوری سے نہیں،طاقت سے!''
ان تمام جنگوں نے دنیا کو دو بڑے اسباق سکھائے
1. دفاعی صلاحیت ہی حقیقی امن کی ضامن ہے۔
2. جنگ خود لڑنی پڑتی ہے، کوئی دوسرا ملک ساتھ نہیں آتا۔
پاکستان نے ثابت کیا کہ اُس کی بقاء اس کی پیشہ ور فوج، مستحکم دفاعی ڈھانچے اور عوامی اتحاد میں ہے۔ جنگ کے دوران پاکستانی سوشل میڈیا پر جو میمز گردش کرتی رہیں، وہ صرف طنز یا تفریح نہیں تھیں، بلکہ قوم کے بدلتے ہوئے شعور کی آئینہ دار تھیں۔ہر پاکستانی کے ذہن میں نقش ہو چکا ہے اگر زندہ رہنا ہے تو لڑنا پڑے گا۔دفاع اب ترجیح نہیں، بقاء کی شرط بن چکا ہے۔ موٹرویز، انفراسٹرکچر اور بیرونی قرضوں سے بننے والی ترقی اس وقت ریت کی دیوار بن جاتی ہے جب دشمن کا ایک حملہ اسے خاک میں ملا دے۔معیشت دفاع پر خرچ کرنے سے کمزور نہیں ہوتی جنگوں میں شامل ہونے سے ہوتی ہے۔معیشت کے ساتھ دفاعی صلاحیت کی بہتری لازم ہے۔

لہٰذابحیثیت قوم ہماری ترجیحات طے ہیں سب سے پہلے دفاع، پھر معیشت، پھر سیاست۔ایران کے لیے شمالی کوریا بہترین مثال ہے دفاعی صلاحیت میں اضافہ سب سے اہم ہے۔ اس کے ساتھ ہمسایہ ممالک سے تعلقات کو بہتر کرنا بھی ضروری ہے۔عسکری طاقت بننے کا مقصد جارحیت کا ارتکاب نہیں جارحیت کے شکار ہونے سے بچنا ہے۔ ایک باوقار اور خوددار قوم کے طور پر عالمی منظر نامہ میں فعال کردار کا انتخاب ہے۔ فوجی امداد اور تجارت کے ساتھ اپنے سرزمین پر غیر ملکی فوجی اڈے قائم کروانے پر مجبور ہوکر آزاد اور غیر جانبدار کردار ادا نہیں کیا جاسکتا۔اسی طرح مشکل میں کوئی بچانے نہیں آتا اپنی جنگ خود لڑنی پڑتی ہے۔ اس لیے یہ حقیقت جاننا ضروری ہے کہ طاقت کے بغیر امن بھی صرف ایک سراب ہے۔

Comments

Avatar photo

سلمان احمد قریشی

سلمان احمد قریشی اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی، کالم نگار، مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ تین دہائیوں سے صحافت کے میدان میں سرگرم ہیں۔ 25 برس سے "اوکاڑہ ٹاک" کے نام سے اخبار شائع کر رہے ہیں۔ نہ صرف حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ اپنے تجربے و بصیرت سے سماجی و سیاسی امور پر منفرد زاویہ پیش کرکے قارئین کو نئی فکر سے روشناس کراتے ہیں۔ تحقیق، تجزیے اور فکر انگیز مباحث پر مبنی چار کتب شائع ہو چکی ہیں

Click here to post a comment