ہوم << تہذیبی تلچھٹ ، جنگیں ، خونریزی اور جوہری ہتھیار. ‏ امتیازاحمد وریاہ

تہذیبی تلچھٹ ، جنگیں ، خونریزی اور جوہری ہتھیار. ‏ امتیازاحمد وریاہ

آج کی دنیا پُرامن بقائے باہمی کے أصول پر نہیں بلکہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے أصول پر عمل ‏پیرا ہے۔دنیا کی واحد سپر پاور گردانے جانے والے ملک امریکا کے صدر کی کوئی زبان نہیں۔اگر کوئی ‏ہے تو وہ طاقت کی زبان ہے۔وہ دوبارہ برسر اقتدار آنے کے بعد سابق ڈیموکریٹک صدر براک أوباما ‏کے دور میں ایران سے طے شدہ جوہری معاہدے کو بیک جنبشِ قلم ختم کردیتے ہیں اور ایران کی ‏گردن مروڑنے کے لیے ایک نئے معاہدے اور نئے مذاکرات کا بھاشن دیتے ہیں۔کوئی ان سے پوچھنے ‏والا نہیں ، بھیا ،وہ پہلے والا معاہدہ کیا ہوا؟وہ بھی تو آپ ہی کے ملک نے کیا تھا ،یہ الگ بات کہ حکومت ‏دوسری جماعت کے صدر کی تھی۔وہ ایران پر جنگ مسلط کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہوتے ہیں اور ‏ان کے اتحادی ’غزہ کے قصاب‘ بنیامین نیتن یاہو مشرق أوسط میں ایک اور جنگ چھیڑ دیتے ‏ہیں۔صہیونی فوج ایران پر فضائی حملوں کا آغاز کرتی ہے اور پہلے ہی وار میں اپنے اور بھارتی جاسوسوں کی ‏مدد سے ایران کی اعلیٰ فوجی قیادت ، جوہری مذاکرات کاروں اور سائنس دانوں کا کام تمام کردیتی ہے۔

اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس کا یہ حملہ حفظِ ماتقدم کے طور پر تھا کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ‏ہونے چاہییں ۔کیوں نہیں ہونے چاہییں ؟ جب آپ غیر علانیہ جوہری قوت ہیں تو ایران کیوں نہیں ‏بن سکتا۔اس تناظر میں یورپ کی منافقت اور منافقانہ کردار ملاحظہ کیجیے۔ کسی ملک نے اسرائیل کے ‏ایران پر حملے کی مذمت کی ہے اور نہ یہ پوچھا ، اس جنگ کا قانونی جواز کیا ہے؟ بین الاقوامی قوانین ، اقوام ‏متحدہ کا منشور کیا ہوئے؟ امریکا اوراس کے اتحادی یورپی ممالک ایک عرصے سے مفروضوں کی بنیاد پر ‏اور حفظِ ماتقدم کے طور پر مزعومہ خطرات سے نمٹنے کے لیے مشرقی ملکوں بالخصوص اسلامی ملکوں کو تباہ ‏و برباد کر نے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں تاکہ ان پر کوئی آنچ آئے اور نہ کوئی ملک ان کے استعماری مقاصد ‏کی راہ میں روڑے اٹکا سکے۔ گذشتہ دو ڈھائی عشروں کے دوران میں یورپ نے امریکا کی قیادت میں ‏جہاں جہاں ،جس جس ملک میں فوجی مداخلت کی، وہاں آج بھی خونریزی جاری ہے،بد امنی اور طوائف ‏الملوکی کا دور دورہ ہے۔افغانستان ، لیبیا ، عراق اور شام کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ اب ایران پر ‏جنگ مسلط کردی گئی ہے۔ مقصد اس کی جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت کا خاتمہ ہے۔یہ جنگ پھیلائی ‏جاتی ہے تو اس کے پورے خطے اور دنیا کے لیے سنگین مضمرات ہوں گے۔

یہاں ،ہمارے دوست جمہوریت کے فیوض و برکات سے ہمیں مستفید فرماتے رہتے ہیں لیکن جہاں ‏جمہوریت ہوتی ہے، وہ کسی قاعدے، ضابطے ،دستور کی پابند بھی ہوتی ہے،شتر بے مہار نہیں ‏ہوتی،ورنہ جمہوریت اور مطلق العنان آمریت میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔ امریکی آئین ہی کو لیجیے، وہ کہتا ‏ہے کہ صدر کو از خود بیرون ملک کسی فوجی مہم جوئی کا اختیار نہیں اور کسی ملک کے خلاف جنگی کارروائی ‏کی کانگریس سے منظوری لینا ضروری ہے۔ لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ صاحب خود ہی ایران پر چڑھ ‏دوڑے ہیں،کانگریس گئی بھاڑ میں ۔امریکی جنگی طیاروں نے ایران کی تین جوہری تنصیبات پر ہزار ہا کلو ‏وزنی بڑے بڑے بم برسا دیے ہیں جو صدر ٹرمپ کے بہ قول امریکی فوج ہی برسا سکتی ہے حالانکہ ‏انھوں نے پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات کے بعد ایران کے خلاف دو ہفتے ‏کے لیے فوجی کارروائی موخر کرنے اور مذاکرات کو مہلت دینے کا اعلان کیا تھا لیکن ان کے اس اعلان ‏کی صدائے بازگشت سنی ہی جارہی تھی کہ انھوں نے امریکی فوج کو ایران کی فوجی تنصیبات کو تباہ کن ‏بموں سے اڑانے کا حکم دے دیا۔اب ان کی کہ مکرنیوں پر کون اعتبار کرے گا؟

سوال یہ ہے، امریکی جمہوریت میں اس سنگین غلطی کا ازالہ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ کیا کانگریس صدر ‏ٹرمپ کا مواخذہ کرے گی؟ کچھ معلوم نہیں ۔اس سے پہلے امریکا نے برطانیہ کے ساتھ مل کر عراق کو ‏تباہ کیا لیکن اس پر کوئی معذرت کی اور نہ کسی موقع پر کسی ندامت وپشیمانی کا اظہار کیا۔کوئی عذر خواہی تو ‏رہی ایک طرف ، اس کے بجائے سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلئیر فرماتے ہیں، انھوں نے بڑی نیک ‏نیتی سے عراق پر حملہ کیا تھا۔ وہ الگ بات کہ عراق میں کسی بھی جگہ سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے ‏والے ہتھیار برآمد نہیں ہوئے تھے۔ان سے بندہ پوچھے ؛ ابے کسی تہذیب کی تلچھٹ، کسی ہنستے بستے ‏ملک کو یوں تباہ کردینا تمھارے بائیں ہاتھ کا کھیل ٹھہرا تھا کیا اور تم سے کوئی پوچھے تک بھی نہیں کہ ‏میاں اس سنگین جرم کی تلافی کیسے ممکن ہے؟ عراق اور أفغانستان میں جو ہزاروں ، لاکھوں لوگ مروا ‏دیے،ان کا خون کس کے ہاتھ پہ تلاش کیا جائے ۔کذب بیانی پر مبنی فوجی مہم جوئیوں کا خمیازہ تو ہدف ‏ممالک اور ان کے عوام بھگتتے ہیں مگر امریکا اور اس کے اتحادی یورپی ممالک کی اسلحہ سازی کی صنعت کا ‏پہیّا چلتا رہتا ہے۔یہ ہے، تہذیب، شائستگی ،مساوات ، شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کے نعروں کی ‏حقیقت اور ان کا مکروہ چہرہ ۔

Comments

Avatar photo

امتیاز احمد وریاہ

امتیازاحمد وریاہ صحافی، استاد، مصنف اور مترجم ہیں۔ صحافتی ‏کیریئر 30 سال سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ میڈیا ‏اسٹڈیز میں ایم ایس، نفسیات اور تاریخ میں ماسٹر آف سائنس کی ‏ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں۔ دس کتب کا انگریزی سے اردو میں ‏ترجمہ کیا ہے (ان میں صحافت پر دو کتابیں بھی شامل ہیں) اور تین ‏درسی کتب کے شریک مصنف ہیں۔ اسلام، پاکستان، تاریخ، ثقافت، ‏اردو زبان و ادب، صحافتی زبان، بین الاقوامی تعلقات بالخصوص ‏مشرق أوسط کی سیاست اور صحافت کے علاوہ سماجی اور سیاسی ‏موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔ ایم ایس میڈیا اسٹڈیز میں ان کے ‏تحقیقی مقالے کا موضوع "پاکستان کی اردو صحافت میں املاء کے ‏مسائل" تھا۔ وہ مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اورعلمی و ‏تحقیقی اداروں کے ساتھ مصنف، مترجم اور ایڈیٹر کی حیثیت سے ‏وابستہ رہ چکے ہیں۔ پاکستان میں صحافیوں کی اس نسل سے تعلق ‏رکھتے ہیں جس نے پیشۂ صحافت میں سب سے زیادہ اتار چڑھاؤ ‏دیکھے اور جو پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کے کم و بیش ‏تمام شعبوں میں کام کرچکے ہیں۔

Click here to post a comment