ہوم << خوشیوں کا بوجھ - نعیم اللہ باجوہ

خوشیوں کا بوجھ - نعیم اللہ باجوہ

ہم جب روتے ہیں، تو آنکھوں کے ساتھ دل بھی کچھ خالی ہو جاتا ہے۔ جیسے درد بہہ کر باہر نکل گیا ہو۔ لیکن خوشی وہ کئی بار ایسا بوجھ بن جاتی ہے جسے نہ آنکھ سہہ پاتی ہے، نہ دل کیا یہ عجیب نہیں لگتا؟

جس شے کو ہم نے ہمیشہ روشنی، راحت، اور رہائی سمجھا ، وہی خوشی جب آتی ہے، تو اسے سنبھالنا دکھ سے زیادہ مشکل محسوس ہوتا ہے؟ خوشیوں کا بھی اپنا ایک وزن ہوتا ہے۔یہ وزن دوسروں کی محرومیوں کا،اپنے گزرے دکھوں کا،یا اس اندیشے کا ہوتا ہے کہ "یہ لمحہ کب چھن جائے گا؟" ہم ہنستے ہوئے بھی اکثر کسی انجانے خوف میں گھرے رہتے ہیں جیسے ہر مسکراہٹ کے پیچھے کوئی نادیدہ کاتب خاموشی سے نوٹ کر رہا ہو:
"یہ لمحہ عارضی ہے اسے سنبھال کر رکھنا۔"

کبھی ہم خوشی کے اظہار سے صرف اس لیے کتراتے ہیں کہ کہیں کسی کا دل نہ دکھے، کہیں کسی کے زخم ہرے نہ ہو جائیں، یا کہیں نظر نہ لگ جائے. اور یوں خوشی، شکر کا موقع بننے کے بجائے، ایک خاموش امانت بن جاتی ہے ، جسے اٹھانا بھی پڑتا ہے، چھپانا بھی۔ پھر وہ خوشی جو کسی خواب کی تعبیر ہو، یا کسی بڑی قربانی کا حاصل وہ تو اور بھی گراں بار ہو جاتی ہے۔

کیونکہ وہ صرف مسرت نہیں، ایک گواہی ہوتی ہے کہ ہم نے کچھ کھو کر کچھ پایا ہے۔ اور یہ احساس خود ایک نئی ذمہ داری بن جاتا ہے۔ خوشی کے لمحات میں ہم اکثر ان چہروں کو یاد کرنے لگتے ہیں جو آج ہمارے ساتھ نہیں، یا وہ لمحے جو ہم نے کبھی کھو دیے تھے۔ یوں خوشی مکمل ہونے سے پہلے ہی کسی خالی پن میں ڈھلنے لگتی ہے۔ تو کیا خوشی واقعی بوجھ ہے؟

شاید نہیں۔....
شاید یہ بوجھ نہیں ایک وزن ہے جیسے کسی امانت کا وزن جسے سنبھال کر جینا پڑتا ہے۔ خوشی کو ہلکا بنانے کا راز شاید یہ نہیں کہ ہم اسے صرف جیتے رہیں، بلکہ یہ ہے کہ ہم اسے بانٹ دیں .نہ صرف مسکراہٹوں میں، بلکہ خامشیوں میں بھی، نہ صرف لفظوں میں، بلکہ جذبوں میں بھی، نہ صرف قہقہوں میں، بلکہ ان آنکھوں کی نمی میں بھی جنھیں بولنا نہیں آتا۔کیونکہ خوشی، جب بانٹی جاتی ہے، تو وہ فقط ایک احساس نہیں رہتی وہ ایک عبادت بن جاتی ہے.

ایک عطا، جو اپنے اندر شکر، محبت، قربانی، اور انسان ہونے کا حق ادا کرنے کا جذبہ رکھتی ہے۔خوشی کو تنہا رکھنا، اسے قید کر دینا ہے اور خوشی کو بانٹ دینا، زندگی کو کشادہ کر دینا ہے۔ تبھی شاید خوشی کا بوجھ رحمت کا ایسا نور بن جائے جو دل کی پرتوں کو چھو جائے اور ضمیر کو منور کر دے۔ جو دل کو خاکساری میں ڈھال دے اور وجود کو ایک نئی سمت دے۔ اور شاید خوشی کا اصل امتحان یہی ہوتا ہے کہ جب سب کچھ حاصل ہو، تب بھی دل میں شکر کی جگہ غرور نہ آئے۔جب زندگی مسکرا رہی ہو، تب ہم دوسروں کے آنسو بھی دیکھ سکیں۔

خوشی کا کمال یہ نہیں کہ وہ ہمیں ہنسا دے بلکہ یہ ہے کہ وہ ہمیں انسان بنا دے۔ایسا انسان جو اپنی خوشی کے شور میں کسی اور کے درد کی خاموشی سن سکے۔ کیونکہ اگر خوشی ہمیں صرف خود میں محدود کر دے تو وہ روشنی نہیں، ایک بے آواز اندھیرا ہے۔ اور اگر وہ ہمیں کسی اور کا سہارا بننے پر مجبور کرے تو وہی خوشی عبادت بن جاتی ہے۔ دوبارہ عرض کرونگا کہ خوشی کو ہلکا بنانے کا راز یہ ہے کہ ہم اسے بانٹ دیں نہ صرف مسکراہٹوں میں، بلکہ یادوں، لمحوں، لفظوں، اور آنکھوں کی نمی میں بھی۔

تبھی شاید خوشی کا بوجھ رحمت کا ایسا نور بن جائے جو دل کی پرتوں کو چھو جائے اور ضمیر کو منور کر دے۔ جو دل کو سجدے کی نرم مٹی سے آشنا کرے.... اور روح کو عرفانِ ذات کی بلندیوں تک پہنچا دے۔