امیر کبیر سید علی ہمدانی رح اک مایہ ناز صوفی،عارف ،سیاح،محدث،مرشد،مصنف الغرض آپ ایک متنوع الجہت شخصیت تھے۔ آپ اک آفاقی و عالمگیر ،حدود و قیودِ ظاہری،صوری بندشوں سے ماورا بے نظیر و شہیر شخصیت کے مالک تھے۔ آپ نے محبت،امن،،بھائی چارگی کے پیغام کو اقصائے عالم میں عام کیا۔ خدمت خلق،صنعت و حرفت ،علم و دانش ،خانقاہی تحریک کے فروغ کےلیے ماورا النہر سے لے کر تبت خورد کے سنگلاخ وادیوں تک سفر کیا۔ جاہ و حشمت،پادشاہی کے مسند کو درخور اعتنا نہیں سمجھا ۔ کردار و عمل کے ساتھ ساتھ اپنی کتابوں کے اندر تصوف و سلوک واخلاق اور محمد و آل محمد علیھم السلام کی محبت و مودة کے حوالے سے نہایت نادر و نایاب معارف مرقوم کیے ہیں۔
حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی 12رجب 714ھ کو ایران باستان کے شہر ھمدان میں پیدا ہوئے۔جعفر رستاق بدخشی جو امیر کبیر سید علی ہمدانی رح کا شاگرد وخلیفہ بھی ہے ۔اور حضرت امیر کی فرمودات و تعلیمات ،احوال پر جو کتاب "خلاصة المناقب "کے نام سے لکھی ہے۔اس میں ولادت 12رجب اور وفات 73 سال کے عمر میں ہونے کا ذکر کیا ہے۔
خود حضرت امیر رح اپنے اشعار میں اپنا تعارف پیش فرماتے ہیں کہ میں کہاں سے ہوں ،میرا تعلق کس سے ہے۔
پرسید عزیزی کہ علی اہل کجائی
گفتم بولایت علی کز ہمدانم
نی زان ھمدانم کہ ندانند علی را
من زان ھمدانم کہ علی را ھمہ دانم
ترجمہ:کسی جاننے والے نے پوچھا کہ اے علی کہاں کے رہنے والے ہو؟
میں نے کہا کہ ولایت علی کے ماننے والوں کے شہر ہمدان سے ہوں
نہ اُس ہمدان سے ہوں کہ جو علی کو ہی نہیں جانتے ۔
بلکہ اس شہر ھمدان سے ہوں جو علی کو ہی سب کچھ جانتے ہیں۔
ان اشعار میں اپنا تعارف ہی علی کی محبت و ولایت کے ذریعے کرتے ہیں۔اور اسی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ تذکرہ نویسوں نے آپ کے والد محترم سید شہاب الدین رح کو حاکم ھمدان ذکر کیا ہے۔لیکن بعض محققین کا کہنا ہے کہ آپ حاکم مطلق نہیں تھے بلکہ ذیلی کچھ مناطق پر حکومت تھی۔ آپ کے مشہور لقب "شاہ ھمدان "کی توجیہ بھی اسی پہلو سے کی ہے کہ آپکے والد گرامی ھمدان کے حاکم تھے۔اس لیے شاہِ ھمدان کے نام سے مشہور ہوئے۔دوسرا خاندان سادات کو بھی اس زمانے میں شاہ کے نام سے موسوم کرتے تھے۔لذا اس پہلو سے بھی آپکا لقب "شاہ ھمدان سے معروف ہوا۔
حضرت امیر کبیر سید علی رح کی شخصیت سلسلہ ذھب المعروف مذھب نوربخشیہ میں اک اہم ستون ،رکن رکین،سلسلہِ طریقت و پیریت کا اک روشن وتابندہ ستارہ ،آفتاب ولایت و مہتاب مرشدیت بالفاظ دیگر حضرت امیر رح کے تذکرے کے بغیر سلسلہ ذھب ہی ادھورا رہتا ہے۔ دعاوں ،فروعات کے طور و طریقوں اور آداب پر مشتمل آپکی کتاب "دعوات شریف صوفیہ امامیہ " نوربخشیوں کےلیے اک رہنما کتاب ہے۔شب و روز کے تمام اعمال ،وظائف اسی کتاب کے مطابق انجام دیتے ہیں۔
حضرت شاہ سید محمد نوربخش رح اپنی کتاب "رسالہ انسان نامہ" میں رقطمراز ہیں کہ
اس عصر میں مشرق سے لے کر مغرب تک صوری "ظاہری" و معنوی دونوں پہلو سے تفحص و جستجو کیا۔مگر جامعیت معنوی ،مکاشفات ،اطوار دل،حقائق کا مظہر سید علی ہمدانی رح کے سلسلے کے علاوہ کسی اور سلسلے میں مجھے نظر نہیں آیا۔
پھر آپ رح سورہ آل عمران ایت نمبر۱۰۳ کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔
اس ایت کے بارے میں صحیح ترین قول چار ہیں۔
حبل اللہ سے مراد 1۔کتاب یعنی قرآن مجید ہے
2۔حبل اللہ سے مراد علماء شریعت ہے۔
3۔حبل اللہ سے مراد مشائخ طریقت ہے۔
4۔حبل اللہ سے مراد عترت حضرت رسول اللہ ص ہے۔
قول چہارم یعنی عترت رسول ص کو ذکر کرنے کے بعد آپ رح نے بطور تائید و دلیل "حدیث ثقلین " ذکر کیا ہے۔
ان چار اقوال کو ذکر فرمانے کے بعد شاہ سید محمد نوربخش رح لکھتے ہیں؛
اہل تاویل و تفسیر کے نزدیک حبل اللہ کے بارے میں صحیح ترین قول چار ہیں۔
اور یہ چار مصداق ،یہ چاروں معنی حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی رح کی ذات بابرکت میں موجود ہیں۔اور کسی اشتباہ کے بغیر حضرت امیر کبیر کا سلسلہ باقی تمام سلاسل تصوف سے اقوی ہے۔
یہاں سے شاہ سید محمد نوربخش رح کے نزدیک حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی رح کی شخصیت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔
تبصرہ لکھیے