گلگت بلتستان ایک حساس علاقہ ہے۔ یہاں کئی مذاہبو مسالک، زبانوں، مسالک اور قبائل کے لوگ آباد ہیں۔ افسوس کہ نصف صدی سے یہ خطہ سخت سیاسی، مذہبی، علاقائی اور لسانی تعصبات کا شکار رہا ہے۔ بدقسمتی سے مذہبی فسادات کی آگ سب سے زیادہ یہاں بھڑکی، جس نے ہزاروں خاندانوں کو متاثر کیا، نسلوں کو ایک دوسرے سے جدا کیا اور معاشرتی ہم آہنگی کو پارہ پارہ کر دیا جس کا خمیازہ اب تک قوم بھگت رہی ہے۔
کسی موقع پر ان نازک حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے معروف شاعر عبد الخالق تاج صاحب نے کہاتھا
"میں اور جان علی مل کر گانا گا سکتے ہیں، ناچ سکتے ہیں، تو قاضی صاحب اور آغا صاحب مل کر قرآن کیوں نہیں پڑھ سکتے؟"
مجھ سے رہا نہ گیا تو، عرض کیا
"اسی کو تو وجہ نزاع بنا دیتے ہیں، تو پھر مل کر کیسے پڑھیں گے؟"
میں بطور ایک سماجی علوم کے طالب علم، گلگت بلتستان میں قیامِ امن، سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری پر تحقیق کر چکا ہوں۔ میرا مشاہدہ ہے کہ یہاں کے سیاسی زعما، مذہبی رہنما، تاجر برادری، سرکاری ملازمین، حتیٰ کہ عوام الناس بھی کسی نہ کسی درجہ میں مذہبی تعصب، نفرت اور کینہ پروری کا شکار رہے۔گلگت بلتستان کا تعلیمی نصاب جیسے معاملات بھی مذہبی و مسلکی اختلافات کا شکار ہوتے رہے۔ یہاں کی سیاست اور علاقائی ترقی بھی مذہبی تعصب کی لپیٹ میں آتی رہی۔
تاہم اس تاریک فضا میں کچھ امید کی کرنیں بھی روشن رہیں۔ حلقہ اربابِ ذوق گلگت جیسے علمی و ادبی فورمز نے انتہائی حساس حالات میں بھی مذہبی ہم آہنگی اور معاشرتی رواداری کا عملی نمونہ پیش کیا۔ اسی طرح گلگت بلتستان کی کالجز کے پروفیسر حضرات کا یہ کہنا بھی بجا تھا کہ
"حالات کچھ بھی ہوں، لیکن پروفیسر برادری نے کبھی تعصب کی بو نہیں آنے دی۔"
اور اب ہم نے ایک نیا منظرنامہ دیکھا، گلگت بلتستان کے تمام اضلاع، تمام زبانوں، قبائل، مذاہب اور مسالک سے تعلق رکھنے والے سکول کے اساتذہ کرام نے اپنے جائز مطالبات کے لیے گلگت میں تاریخی دھرنا دیا۔ لیکن اس دھرنے کی اصل روح صرف مطالبات یا پروموشن تک محدود نہ تھی، بلکہ اس دھرنے میں اتحاد، یگانگت، مذہبی رواداری اور سماجی ہم آہنگی کا وہ مظاہرہ ہوا جو شاید نصف صدی میں پہلی بار اتنے کھلے انداز میں دیکھنے کو ملا۔
سب سے خوبصورت بات یہ رہی کہ تمام مکاتبِ فکر کے مدرس علمائے کرام اور دیگر اسکول ٹیچرز اس دھرنے میں نہ صرف شریک ہوئے بلکہ ساتھ بیٹھے، کھایا پیا، مسکرائے، مکالمہ کیا اور ایک دوسرے کو گلے لگایا۔ یہ وہی لوگ تھے جن کے مدارس و مساجد الگ، عقائد و افکار الگ، زبان الگ، علاقہ الگ اور بہت کچھ الگ اور متضاد ہے۔ لیکن اساتذہ کی یہ صف ایک ہی چھت کے نیچے، ایک ہی مقصد کے لیے یکجا ہوئی۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
"وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَلَا تَفَرَّقُوا"
"اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔"(سورۃ آلِ عمران: 103)
گلگت بلتستان کے سکولوں کے اساتذہ کرام کا یہ دھرنا گویا اسی آیت کی عملی تفسیر بن گیا، تمام مکاتب فکر، زبانوں اور علاقوں کے اساتذہ نے ایک "رسی" تھامی یعنی علم، شعور اور انصاف کی رسی۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضاً"
"مومن مومن کے لیے ایک عمارت کی مانند ہے جس کے ایک حصے دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں۔"(صحیح بخاری)
اساتذہ کے اس اتحاد نے ثابت کیا کہ جب قوم کے معمار ایک صف میں کھڑے ہوں، تو وہ صرف پروموشن کے مطالبات نہیں کرتے، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک نئی فکری و روحانی بنیاد رکھتے ہیں۔
یہ دھرنا صرف احتجاج نہیں ہے، یہ ایک پیغام ہے کہ
"ہم مذہب، زبان، علاقہ اور قبیلے کے نام پر لڑنے والے نہیں، بلکہ ایک دوسرے کو گلے لگانے والے ہیں۔
ہم تعلیمی نظام کو تعصب کا شکار بنانے والے نہیں، بلکہ علم کو سماجی جوڑ کا ذریعہ بنانے والے ہیں۔
ہم ماضی کے نفرت آمیز ورثے کو ختم کر کے اتحاد و محبت کی نئی تاریخ لکھنے والے ہیں۔ "
اس دھرنے کی خوبصورتی یہ بھی رہی کہ اس کی حمایت صرف اساتذہ تک محدود نہیں رہی، بلکہ تمام مکاتبِ فکر کے جید مذہبی رہنماؤں نے دل کھول کر اس کا ساتھ دیا۔ اتحاد و یگانگت کی اس فضا میں قاضی نثار احمد صاحب کا کردار نہایت نمایاں رہا۔ انہوں نے عیدِ قربان کے ایام میں اساتذہ کی حوصلہ افزائی کے لیے نہ صرف دھرنے کا کھل کر دفاع کیا بلکہ قربانی کی ایک گائے بھی عطیہ کی تاکہ اساتذہ قربانی کا گوشت کھا کر جسمانی و روحانی طور پر تقویت حاصل کریں اور اپنے مطالبات کے لیے زیادہ پرعزم اور پائیدار انداز میں کھڑے رہیں۔
اسی طرح دیگر مذہبی و سماجی شخصیات نے بھی اساتذہ کی خدمت اور حوصلہ افزائی میں کوئی کسر نہ چھوڑی، کبھی اعلانات کے ذریعے، کبھی خود آ کر اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے۔ یوں یہ دھرنا محض ایک احتجاج نہیں بلکہ ایک اجتماعی ضمیر کی بیداری، اور مذہبی قیادت و تعلیمی طبقے کے باہمی اعتماد کی نادر مثال بن گیا۔
یہ دھرنا ہمیں صرف حکومت کی بے حسی نہیں دکھاتا، بلکہ ایک مثالی سماجی ہم آہنگی اور قومی یگانگت کی نئی صورت دکھاتا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہی اتحاد گلگت بلتستان کو ایک خوشحال، پرامن اور تعلیم دوست خطہ بنانے کی بنیاد بن سکتا ہے۔
اساتذہ کا دھرنا ایک تاریخی موڑ ہے ،اس سے جو سبق ملے، اسے صرف کاغذوں تک محدود نہ کریں بلکہ اپنی سوچ، اپنی گفتگو اور اپنی اجتماعی زندگی میں شامل کریں۔
تبصرہ لکھیے