سب سے پہلے تو عید الاضحیٰ کا چوتھا دن مبارک ہو!
اس کے بعد اس چوتھے روز کے حوالے سے چار ہی باتیں عرض ہیں کہ:
پہلی بات: یاد رکھئے گا چوتھے دن کی قربانی کے ہونے یا نہ ہونے کا سارا دار و مدار حدیث کی صحت اور ضعف پر ہے ، کسی امام کا قول حدیث کے بعد ہوگا اس لئے پہلے حدیث کو دیکھا جائے گا ، اگر تو آپ بھی علمِ حدیث رکھتے ہیں یا پھر کسی ایسے عالم پر اعتماد کرتے ہیں جو علمِ حدیث کی معرفت رکھتا ہے اور آپ یا تو خود یا پھر کسی اور عالم کے ذریعہ اس حدیث کی صحت و ضعف تک پہنچ جاتے ہیں تو آپ یقینا دو میں سے ایک نتیجے پر پہنچیں گے۔۔۔
👈 یا تو حدیث صحیح ہوگی ، اور اس بنیاد پر چوتھے روز کی قربانی کا جواز مل جائے گا۔
👈 یا تو حدیث ضعیف ہوگی ، اور چوتھے روز کی قربانی کا جواز نہیں مل سکے گا۔
اب اگر جواز مل گیا تو آپ کا ذبیحہ چوتھے دن بھی قربانی قرار پائے گا ، بصورتِ دیگر قربانی نہیں ہوگی اور عام صدقہ ہو جائے گا۔
دوسری بات: چوتھے دن کی قربانی کرنے والوں یا اس کو صحیح تسلیم کرنے والوں (بشمول میرے) سے بھی اگر آپ قربانی کے لئے افضل ترین ایام کا پوچھیں گے تو سب ہی اس بات پر متفق نظر آئیں گے کہ قربانی کا افضل ترین دن یوم النحر یعنی 10 ذو الحجہ ہے اور اس کے بعد 11 پھر جتنا جلدی ہو سکے قربانی کر لینی چاہئے اور 13 کی شام تک جو قربانی ہے یہ ایک طرح سے اجازت ہے۔۔۔۔البتہ افضل ہر گز نہیں ، لیکن بہر کیف قربانی اس دن ہو جاتی ہے۔۔۔۔
تیسری بات: سوال یہ بنتا ہے کہ جو لوگ چوتھے روز قربانی کا اہتمام کرتے ہیں عمومی طور پر ان کے ہاں افضل ترین اوقات میں عبادات کی ادائیگی کرنے کا تصور ملتا ہے اور یہ لوگ تاخیر کو نہ صرف نا پسند کرتے بلکہ اس سے بچتے بھی ہیں جیسے نمازوں وغیرہ میں ہم دیکھتے ہیں ، تو پھر یہی لوگ جب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ قربانی کے افضل دن اور اوقات پہلے اوقات اور ایام ہیں تو یہ اپنی قربانی کو چوتھے روز تک کیوں لے جاتے ہیں اور اتنی تاخیر کیوں کرتے ہیں؟
تو عرض یہ ہے کہ کبھی کبھار کچھ معاملات میں ایسا ہوتا ہے کہ سنت کا تصور ہی لوگوں کے ذہن سے نکل رہا ہوتا ہے ، اور اس تصور کو دوبارہ اجاگر کرنے یا بالفاظِ دیگر احیاء سنت کیلئے غیر افضل (یعنی مفضول) کام یا اوقات کو اختیار کرنا پڑتا ہے تاکہ کسی بھی عمل کا تصور مکمل طور پر ختم نہ ہونے پائے بلکہ کسی نا کسی حد تک قائم رہے ، اس کی ایک مثال جہری (با آوازِ بلند) نمازِ جنازہ ادا کرنا بھی ہے ، اور اسی طرح چوتھے دن کی قربانی ہے کہ جب بہت اہم اور بڑے مقامات پر قربانی کر کے اس تصور کو لوگوں کے اذہان و قلوب میں راسخ کیا جاتا ہے کہ رخصت آج کے دن تک ہے اور اس دن قربانی کی جاتی ہے۔
چوتھی بات: اس بات کو پہلی بات سے متصل ہی سمجھئے گا کہ اگر آپ کے نزدیک حدیث کی صحت پر کلام ہے اور حدیث کو آپ (یعنی محقق ، جو علمِ حدیث سے بہرہ ور ہو) اپنی یا کسی محقق کی طویل اور تفصیلی تحقیق پر صحیح نہیں مانتے تو بھی آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہاں پر معاملہ حلال و حرام کا نہیں ہے ، بلکہ معاملہ بالکل سیدھا ہے اور وہ یہ ہے کہ پھر آپ کی قربانی نہیں ہوگی اور آپ کے حق اس دن جو ذبح کیا گیا جانور ہے وہ عام صدقے کا حکم رکھے گا ، البتہ آپ کو دوسروں پر فتوے سے گریز کرنا ہوگا کیونکہ وہ یا تو اپنی یا کسی اور محقق کی تحقیق کی بنیاد پر اس دن کی قربانی کو درست سمجھتا ہے اسی لئے اس دن قربانی کر رہا ہے اور اس کے حق میں وہ افضل ترین صدقہ یعنی قربانی ہی ہوگی۔
باقی یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ فتوے بازی سے گریز کریں ، اپنے شعائر کو مکمل آزادی کے ساتھ منائیں اور منانے دین ، یہ کھانے پینے کے دن ہیں ، کھائیں ، پئیں ، کھلائیں ، پلائیں اور رب کا شکر ادا کریں۔۔۔۔
ایک بار پھر عید کا چوتھا دن مبارک ہو۔
تبصرہ لکھیے