ہوم << ایران پر اسرائیلی جارحیت اور انسانیت کی موت - ام احمد فیضان

ایران پر اسرائیلی جارحیت اور انسانیت کی موت - ام احمد فیضان

فرعونِ وقت کی واپسی:
دنیا اس وقت شدید بےچینی، خوف اور غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ ایک بار پھر مشرقِ وسطیٰ کی زمین پر آگ برس رہی ہے، لیکن اس بار نشانہ غزہ نہیں، بلکہ تہران، ناتانز اور اصفہان ہیں۔ اسرائیل، جو پہلے ہی فلسطین میں ظلم کی نئی تاریخ رقم کر چکا ہے، اب ایران کی خودمختاری اور سالمیت کو بھی روندنے پر تُلا ہوا ہے۔
حالیہ اسرائیلی حملے صرف عسکری تنصیبات تک محدود نہیں رہے، بلکہ ان کا دائرہ عام شہری علاقوں، ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں تک جا پہنچا۔ سینکڑوں شہری ہلاک، ہزاروں زخمی، اور لاکھوں کا مستقبل غیر یقینی کی دھند میں لپٹا ہوا ہے۔ یہ سب کچھ کس کے اشارے پر ہو رہا ہے؟ اور کیوں؟
یہ سوال اب صرف ایران کا نہیں رہا، یہ پوری انسانیت کا ہے

📌 اسرائیل: ایک جدید فرعون؟
جب طاقت عقل سے زیادہ اور رحم سے خالی ہو جائے، تو وہ صرف وحشی درندہ بن جاتی ہے۔ اسرائیل اس وقت اسی درندگی کی عملی تصویر بنا ہوا ہے۔ جس طرح فرعون نے بنی اسرائیل کو غلام بنا کر ظلم کی انتہا کی تھی، آج اسرائیل خود فرعونِ وقت کا کردار ادا کر رہا ہے۔
اسرائیل کی ریاستی پالیسی میں انصاف، اخلاقیات اور بین الاقوامی قوانین کی کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔ صرف مفاد، غرور اور ظلم کی زبان باقی ہے
🇺🇸 عالمی ضمیر کہاں ہے؟
اقوامِ متحدہ، یورپی یونین، حتیٰ کہ خود امریکہ — سب اسرائیل کے ’دفاع کے حق‘ کی دہائی دے رہے ہیں۔ یہ کون سا دفاع ہے جو دوسروں کی زمین، بچوں کی لاشوں، اور شہر کے ملبے پر کھڑا ہوتا ہے؟
کیا امریکہ یا اس کے اتحادی یہ مان چکے ہیں کہ مظلوم کا کوئی حق نہیں، صرف طاقتور ہی درست ہے؟
🔥 ایران: مزاحمت کا نشان
ایران نے اگرچہ اپنی بقا کے لیے جوابی اقدامات کیے، لیکن اقوامِ عالم کو یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی قوم تب تک خاموش نہیں رہتی، جب تک اس کے گھر پر بم نہ گرنے لگیں۔ ایران کا جواب نہ صرف فطری ہے بلکہ وہ عالمی نظامِ انصاف کی ناکامی پر ایک سوالیہ نشان بھی ہے

📖 قرآن کی گواہی:
> "إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلاَ فِي الأَرْضِ"
’’بیشک فرعون نے زمین میں سرکشی کی۔‘‘
(سورہ القصص: 4
یہ آیت اسرائیل پر بالکل صادق آتی ہے۔ طاقت کی سرکشی، ظلم کا تسلسل، اور حق تلفی کی داستان اسرائیل آج کی دنیا کا فرعون بن چکا ہے، جو دنیا کے موسیٰ کی راہ دیکھ رہا ہے۔

✊ انسانیت کو فیصلہ کرنا ہو گا!
یہ وقت ہے کہ دنیا فیصلہ کرے
کیا ہم ظالم کے ساتھی بنیں گے یا مظلوم کی آواز؟
کیا ہم تماشائی بن کر تاریخ کے مجرم بنیں گے؟
یا انسانیت کا علم بلند کر کے تاریخ کے ہیرو؟
یہ فیصلہ صرف اقوامِ متحدہ یا واشنگٹن میں نہیں، ہر اس انسان کے دل و ضمیر میں ہونا چاہیے، جو حق و باطل کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

📍 اختتامیہ:
یہ جنگ صرف بموں سے نہیں، ضمیر سے بھی لڑی جا رہی ہے۔
اگر ہم نے آج نہ بولے، تو کل ہماری خاموشی ہی ہماری رسوائی بن جائے گی۔