ایران پر اسرائیل کا حالیہ حملہ صرف ایک ملک پر عسکری جارحیت نہیں بلکہ پورے عالمِ اسلام کے لیے ایک ناقابلِ انکار پیغام ہے۔ یہ حملہ کئی سنگین سوالات کو جنم دیتا ہے جنہیں نظر انداز کرنا مسلم امہ کے لیے مزید تباہی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ پہلا سوال یہی ہے کہ کیا اسرائیل تن تنہا یہ کاروائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ اگرچہ اسرائیل کے پاس طویل فاصلے تک مار کرنے والے طیارے موجود ہیں، مگر ایران تک کارروائی کے بعد ان کی واپسی کے لیے ایندھن کی فراہمی ناگزیر تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کو یا تو راستے میں فیول ری فلنگ کی سہولت حاصل ہوئی، یا کسی بیس سے مدد ملی۔ یہ تکنیکی حقیقت ہمیں اس اہم اور تکلیف دہ سوال کی طرف لے جاتی ہے کہ کیا اسرائیل کو کسی اسلامی ملک نے ایندھن یا بیس فراہم کیا؟ کیا اسرائیلی طیارے اسلامی ممالک کی فضائی حدود سے گزرے؟ اور اگر ایسا ہوا تو کیا اس کی اجازت پہلے سے طے شدہ تھی؟ 200 کے قریب طیاروں کی نقل و حرکت آج کے سیٹلائیٹ اور ریڈار سسٹمز کی موجودگی میں چھپائی نہیں جا سکتی۔ مگر حیرت انگیز طور پر کسی اسلامی ملک نے نہ ایئر ڈیفنس الرٹ جاری کیا، نہ فضائی خلاف ورزی پر آواز اٹھائی، اور نہ ہی کسی نے ان طیاروں کو انٹرسیپٹ کیا۔ اس خاموشی کو کسی بھی طرح لاعلمی یا تکنیکی غفلت قرار نہیں دیا جا سکتا، بلکہ یہ ایک منظم رضامندی کا مظہر ہے جو پہلے سے طے شدہ تھی۔
یہی وہ لمحہ ہے جہاں سے مسلم دنیا کی بے بسی نہیں، بلکہ خاموش شراکت داری کا تاثر جنم لیتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے کئی اسلامی ممالک کی جانب سے اس حملے پر کوئی ٹھوس ردعمل سامنے نہ آنا اس امر کی گواہی ہے کہ اسرائیل نے نہ صرف ایک عسکری کاروائی کی، بلکہ مسلم دنیا کی سیاسی و اخلاقی کمزوری کو بھی بے نقاب کیا۔ یہ حملہ صرف ایران کے خلاف نہیں بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے اجتماعی وقار پر حملہ ہے۔ آج اگر اسرائیل یہ ثابت کر رہا ہے کہ وہ جب چاہے، جہاں چاہے حملہ کر سکتا ہے اور مسلم دنیا کچھ نہیں کر سکتی، تو اس سے زیادہ شرمناک صورت حال اور کیا ہو سکتی ہے؟ اسرائیل نے دنیا کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ اس کا اصل ہتھیار جدید ٹیکنالوجی نہیں بلکہ مسلم حکمرانوں کی خاموشی ہے۔ یہی خاموشی اسے آئندہ بھی ایسے حملے کرنے کا حوصلہ دے گی، اور اسلامی ممالک میں سے جو بھی مزاحمت کرے گا، اسے الگ تھلگ کر دیا جائے گا۔
مسلم دنیا کی جانب سے ردعمل صرف مذمتی بیانات کی حد تک محدود رہا ہے۔ نہ کوئی ہنگامی اجلاس، نہ سفارتی دباؤ، نہ اقوام متحدہ میں آواز، اور نہ ہی مسلم بلاک کی اجتماعی حکمت عملی۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف مذمت سے قبلہ درست ہو سکتا ہے؟ کیا صرف بیان بازی سے جارحیت رک سکتی ہے؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس حملے کے تین پہلو بہت واضح ہیں: اسرائیل کو عملی معاونت فراہم کی گئی، فضائی حدود خاموشی سے کھول دی گئیں، اور ردِعمل کے طور پر کوئی اجتماعی آواز نہیں اٹھی۔ یہ سب کچھ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ مسلم دنیا محض خاموش نہیں، بلکہ رفتہ رفتہ ایک ایسے سیاسی غلامی کے دور میں داخل ہو رہی ہے جہاں غیرت، حمیت اور خودمختاری جیسے الفاظ صرف تقریروں کی حد تک باقی رہ جائیں گے۔ اس حملے سے زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ جب ایران نے چند ڈرونز کے ذریعے ردعمل ظاہر کیا تو اسرائیل کی دفاعی چھتری لرز گئی۔ اور پھر عالمی طاقتوں کے دعویدار امریکہ اور برطانیہ فوری طور پر اسرائیل کی مدد کو دوڑے چلے آئے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایران جیسے پابندیوں میں جکڑے ملک کے چند ڈرونز سے اتنی بےچینی پیدا ہو سکتی ہے، تو اصل خوف کس چیز کا ہے؟ کیا اصل خطرہ ایران ہے یا وہ جرأت، وہ مزاحمت، جو اگر مسلم دنیا میں بیدار ہو جائے تو دنیا کا طاقت کا توازن بدل سکتا ہے؟
یہ وقت صرف عسکری ردعمل کا نہیں، بلکہ فکری بیداری، سیاسی اتحاد اور اجتماعی دفاعی نظم کے قیام کا ہے۔ اگر امتِ مسلمہ نے اب بھی خاموشی اختیار کیے رکھی، تو وہ دن دور نہیں جب ایران، فلسطین، یمن، شام، لبنان اور حتیٰ کہ پاکستان کو بھی ایسے حملوں کا سامنا ہو گا — اور ہم صرف مذمت کی فائلیں جمع کرتے رہ جائیں گے۔ آج فیصلہ امت کے ہاتھ میں ہے: وہ تاریخ میں اپنے وجود کو ایک بےحس تماشائی کے طور پر یاد کروانا چاہتی ہے یا ایک بیدار، باوقار اور متحد قوت کے طور پر۔؟
تبصرہ لکھیے