ادب محض تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ قوموں کے شعور کی بیداری، فکری اصلاح اور معاشرتی ارتقاء کا سنگِ بنیاد ہے ادیب اور شاعر معاشرے کے حساس نباض ہوتے ہیں جو الفاظ کی قوت سے سچائی کو بے نقاب کرتے اور خوابوں کو تعبیر عطا کرتے ہیں موجودہ دور، جو فکری انحطاط، اخلاقی زوال، اور سماجی انتشار کا شکار ہے ایسے میں ادیب اور شاعر کا کردار پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے .." ادیب اور شاعر اپنے قلم کے ذریعے عوام کے ضمیر جھنجھوڑ سکتے ہیں وہ معاشرتی برائیاں جیسے کرپشن، ناانصافی، جہالت، اور عدم مساوات کے خلاف آواز بلند کر کے عوام کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، اور حبیب جالب جیسے شعرا نے اسی کردار کو بخوبی نبھایا۔
آج کے دور میں نوجوان نسل ذہنی انتشار، مایوسی اور بے مقصدیت کا شکار ہے ایسے میں ادیب اور شاعر نوجوانوں کو مقصدِ حیات، حب الوطنی، اور کردار سازی کی طرف مائل کر سکتے ہیں ادب ایک ایسا آئینہ ہے جو انسان کو اس کی اصل پہچان دِکھا سکتا ہے سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے ادیب و شاعر کو ایک نئی طاقت بخشی ہے۔ وہ آن لائن بلاگز، وی لاگز، اور ڈیجیٹل ادب کے ذریعے اپنا پیغام وسیع تر حلقوں تک پہنچا سکتے ہیں اور شعور کی روشنی عام کر سکتے ہیں
جہاں زمانہ آج بھی مصنوعی چکا چوند، دولت کی ریل پیل فکری الجھنوں اور سماجی اندھیریوں سے گھرا پڑا ہے وہاں ادیب اور شاعر ایک چراغ کی مانند ہیں جو اندھیروں کو چیر کر راہ دکھاتے ہیں اگر ادیب و شاعر جیسا اپنے قلم کی حرمت کو پہچان لے تو معاشرتی اصلاح اور بہتری کوئی خواب نہیں رہے گی بلکہ ایک حقیقت بن جائے گی
بقول فیض احمد فیض صاحب کے ...."
؎ متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
تبصرہ لکھیے