ہوم << طارق جمیل اور خالد بن ولید کے نقش پا - ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

طارق جمیل اور خالد بن ولید کے نقش پا - ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

دنیا میں آج دو ہی متحارب قوتیں ہیں، ابلیسی فکر یا سرمائے کے پجاری اور فکر اسلامی۔ ان کا کوئی وقتی ٹھیہ ٹھکانہ ہو تو ہو، ورنہ یہ دونوں حد بندیوں سے ماورا ہیں۔ سرمائے کا مذہب نہیں ہوتا اور اہل مذہب کی سرمائے سے وہی رغبت ہوتی ہے جس کا تقاضا عالم اسباب کرے۔ سرمائے کے قائد بنی اسرائیل ہیں جن کا سب سے بڑا ہتھیار ذرائع ابلاغ ہیں۔ انہی سے وہ ذہن مسخر کر کے دنیا پر قابض ہیں۔ فکر اسلامی کا اسلحہ خانہ اب خاکستر ہو چکا ہے۔ تاہم بھوبل میں دبی شرار آرزو سے ابلیس بھی لرزہ براندام ہے۔ اقبال کو تب یہ شرار آرزو خال خال کے سینے میں ملی تو اب یہ کروڑوں اسیران محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بلڈ گروپ بن چکی ہے۔

روایتی اسلحہ بندوق، ٹینک اور گولا بارود ہوتا ہے۔ فکری اسلحہ خانہ میں ان کے نام جماعت اسلامی، تبلیغی جماعت، تنظیم اسلامی وغیرہ ہیں۔ اور جماعتیں تنظیمیں بھی ہیں۔ ان کے اپنے نام ہیں۔ دیگر ملکوں میں یہ فکری ہتھیار کہیں جماعت اسلامی، کہیں اخوان المسلمون، کہیں حماس اور کہیں جسٹس پارٹی کہلاتے ہیں۔ لیکن آج صرف تبلیغی جماعت جو امت کا وہ مؤثر ہتھیار ہے جس کا کوئی نام تک نہیں۔ یہ بے نام ہتھیار وہ ہے جس کی مار چلی تا سائبیریا اور ناروے تا الاسکا ہے۔ کبھی غور کیا آپ نے کہ اس جماعت کا اپنا اختیار کردہ کوئی نام نہیں۔ اسے تبلیغی جماعت کا نام تو ہم آپ نے دیا ہے۔ افراد کا ایک گروہ اور کچھہ تنظیمی ڈھانچہ ہے جسے امیر کی نگرانی میں شوریٰ چلاتی ہے۔

کروڑوں افراد، امیر اور شوریٰ نے آج تک اپنا کوئی نام نہیں رکھا، نہ ان کا کوئی ترجمان ہے۔ اہل یہود کا کلی انحصار اگر ذرائع ابلاغ پر ہے تو یہ لوگ اپنے اجتماع میں نماز کے لیے لاؤڈ سپیکر تک استعمال نہیں کرتے لیکن وسعت قلب دیکھیے کہ باقی مساجد میں یہ لوگ نماز کے لیے لاؤڈ سپیکر چلا لیتے ہیں۔ تو یہ دو عملی کیوں؟ تاکہ یہ معمولی سا مسئلہ امت میں افتراق پیدا نہ کرے. ذرائع ابلاغ سے اتنی بیزاری کے باوجود ہمارا یہ قیمتی ہتھیار کل عالم کا گھیراؤ کیے ہے۔ تو ان لوگوں کا اپنا ہتھیار کیا ہے؟ وہ ہے، اشک سحر گاہی سے وضو!

ناقدین کا خیال ہے کہ اس جماعت میں غافل بھی ہیں، کاہل بھی ہیں، ہشیار بھی ہیں۔. اچھا؟ تو کیا یہی کچھ دیگر جماعتوں میں نہیں ہے؟ بولیے, چپ کیوں لگ گئی؟ چنانچہ جان لیجئے کہ اس جماعت میں ایثار پیشہ، وقت اور مال قربان کرنے اور اشک سحر گاہی سے وضو کرنے والے بھی موجود ہیں۔ اور یہی لوگ ہر جماعت کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ ناقدین اس جماعت کے یہاں بہت کچھ اور بھی ڈھونڈتے ہیں، جیسے: "یہ جہاد نہیں کرتے؟" یا یہ کہ "یہ لوگ سیاست کیوں نہیں کرتے؟" یا مثلاً یہ کہ "ان میں عالم کیوں نہیں ملتے؟" ان ناقدین کے لیے مولانا زاہد الراشدی نے نپا تلا جواب تیار کر رکھا ہے، ملاحظہ کیجئے: "میں تبلیغی جماعت کو مسجد و مدرسہ اور دین کے دیگر شعبوں کی "ریکروٹنگ ایجنسی" کہا کرتا ہوں جو مسلمانوں کے گھروں میں جا کر اور ایک ایک دروازے پر دستک دے کر انہیں گھیر گھار کر مسجد میں لے آتی ہے. پھر مختلف شعبوں کے ذمہ داران کا کام ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت کر کے انہیں کسی کام میں کھپائیں"(روزنامہ اوصاف 17 نومبر 1995).

تبلیغی جماعت بیرون ملک کئی بحرانوں سے بخوبی نمٹ چکی ہے۔ پاکستان میں یہ آج جس بحران میں ہے، اللہ والے اسے بھی نمٹا لیں گے۔ دعا ہے کہ اللہ کریم طارق جمیل صاحب سے توبہ استغفار کرا کر انہیں جماعت کے نظم و ضبط کا پابند کر دے۔ لیکن قرائن اس دعا کے حق میں نہیں ہیں۔ میرے متعدد تبلیغی بھائی گواہ ہیں کہ میں خود مدتوں موصوف کا مداح اور بخدا ان کے لیے دعا گو رہا۔ پھر اندازہ ہوا کہ انہیں تو کیمرے اور شہرت کی لت لگی ہے۔ بیگم نواز شریف کی نماز جنازہ ہو تو کیمرے کے ساتھ آگے آگے، خواجہ سراؤں کا پتا چلے تو ابلاغی لشکر لے کر وہاں موجود، کہیں نچنیوں کی خبر ملے تو کیمرا لیے نچنیوں سے "اجتہادی" مصافحے کو بے قرار۔ اس "ہائی پروفائل" مصافحے کے باعث اب لاکھوں کم علم تبلیغی بھائیوں کو یہ غیر شرعی اختلاط مرد و زن عین شرعی لگتا ہے، کیوں؟ اس لیے کہ۔الناس علی دین ملوکہم، "عوام اپنے بڑوں کی پیروی کرتے ہیں"۔ مقتدرہ کو جب یقین ہو گیا کہ لیڈی ڈیانا اسلام قبول کرنے کو ہے اور اس "ہائی پروفائل" کا قبول اسلام پورے مغرب کو اسلام پڑھا دے گا تو انہوں نے اپنی ہائی پروفائل کو بلا تاخیر اڑا کر رکھ دیا۔ لیکن ہمارے ہائی پروفائل کے "اجتہادات" نے مقدس تبلیغی جماعت کی کیمیا بدل کر رکھ دی۔

اکابر تبلیغی جماعت کے لیے طارق جمیل ہمیشہ "اگلے بنے نہ نگلے بنے" ہی رہے. نہ تو کبھی ان سے اظہار لاتعلقی کیا جا سکا، نہ انہیں اپنایا گیا. تنبیہ اور خبردار کیا جاتا رہا، تا وقتیکہ ان کا اصل چہرہ سامنے آگیا کہ جب وہ مقتدر پراجیکٹ کے لیے کیمرے کے آگے ٹسوے بہانے لگے. ادھر ان کا ایک بھائی بند نبوی خواب، بحق جنرل باجوا تصنیف کر چکا تھا۔ ویڈیو دیکھیے جن میں موصوف جنرل باجوا اور پراجیکٹ کے لیے رو رو کر گڑگڑا رہے ہیں: "الہ العالمین تو ہی ان کی حفاظت فرما". یہ ویڈیو درجن سے زائد ہیں. میں آپ اپنے ماں باپ کو دو نہیں تو چار دفعہ روئے ہوں گے۔ یہاں تو پینٹاگونی پراجیکٹ اور جرنیل کے لیے دن رات کے کھیکھن۔ حدیث بیان کرتے ہوئے امام مالک کو بچھو نے ڈس لیا، ضبط کیا، پھر ڈسا، روہانسے ہوئے، مکرر ڈسا، گلا رندھ گیا، استفسار پر بولے: "کچھ نہیں, اچھو لگ گیا تھا". شاید انہی اکابر کے سہارے یہ بلیغ قول وضع ہوا: "مرد کا رونا غلیظ ترین موسیقی ہے"۔

طارق جمیل صاحب آپ کیمرے، سیاست، جنرل باجوا اور پراجیکٹ فاتح جلال آباد کے لیے تنہائی میں بھلے انسو بہا لیا کریں۔ لیکن ہماری مقدس تبلیغی جماعت کے خلاف اشتہاری مہم بند کرکے نظم جماعت کی وہ اطاعت کریں جیسی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کی تھی۔ انہیں سپہ سالاری سے معزول کر کے عام سپاہی بننے کا حکم دیا گیا تو انہوں نے عمل میں ذرا تاخیر نہیں کی۔ قبلہ گاہی آپ عام دکانداروں، مزدوروں کے ساتھ کندھے پر بستر رکھے کسی لق و دق صحرا میں کیمرے کے بغیر چار ماہ لگائیں۔ پھر یونہی کسی بیرونی جماعت (ترجیحا افریقی) کے ساتھ رہ کر ابلے آلو کھا کر، کہ یہی اس جنتی جماعت کی شناخت ہے، وقت لگائیں۔ آپ کی واپسی پر قارئین مجھے آپ کے قدموں میں بیٹھا معافی مانگتے پائیں گے۔ یہ میرا بلینک چیک ہے۔ بسم اللہ کیجئے, گھوڑا اور میدان حاضر ہیں!