آج صرف ذرا سا کھانا بنانا تھا۔ کچھ بھی خاص نہیں ایک سادہ سا سالن۔ لیکن جیسے ہی میں نے پتیلی ہلائی، تو تیل چھینٹ کر میرے ہاتھ پر آ گرا۔ بس، ایک لمحہ اور میرا دایاں ہاتھ جل گیا۔
جلن سے میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے، مگر میں کچھ لمحے بس ساکت رہ گئی۔ تکلیف تھی بہت تھی، مگر اس سے زیادہ میرے دل پر اک بوجھ سا آ گیا تھا۔
نہ جانے کیوں میرے ذہن میں پہلا خیال یہ نہیں آیا کہ کسی مرہم کی تلاش کروں یا برف رکھوں بلکہ صرف ایک خیال آیا:
"اگر میری ماں یہاں ہوتیں۔''
میرے آنسو اب تکلیف سے نہیں، اس احساس سے بہہ رہے تھے کہ میری ماں آج میرے ساتھ نہیں ہیں۔ اگر وہ ہوتیں، تو میری چیخ سن کر فوراً بھاگتی آئیں، میرا ہاتھ تھام کر کہتیں:
"کیا ہوا میری بچی؟ ارے چھوڑو کام کو، تم کیوں کر رہی ہو یہ سب؟ میں کر لوں گی…"
پھر پیار سے دھیما سا ڈانٹ دیتیں شاید بولتیں،
"عقل بھی ہے یا سب بھاگ گئی ہے گرمی میں؟"
لیکن اُن کے لہجے میں ایک یقین ہوتا ایک سکون کہ اُن کے ہوتے مجھے کچھ نہیں ہو گا۔
میں وہیں کچن کے فرش پر بیٹھ گئی۔ مرہم لانا بھی یاد نہ رہا۔ بس جلتے ہاتھ کو دیکھتی رہی، اور سوچتی رہی۔ میرے ذہن میں صرف ماں کی کمی گونج رہی تھی۔
پھر اچانک میرے ذہن میں ایک اور تصویر ابھری ایک ایسی تصویر جو میں چاہ کر بھی کبھی نہ بھول سکی:
فلسطین کی وہ بچی، جو جلتے گھر کے بیچ بیٹھی تھی۔
وہ ایک عکس تھا، ایک سایہ ایک چھوٹا سا وجود جو شعلوں کے درمیان بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا۔ اس کے اردگرد ہر طرف آگ تھی، دیواریں گر رہی تھیں، مگر وہ بس بیٹھی تھی جیسے موت کا انتظار کر رہی ہو، یا شاید کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو۔
میں نے وہ منظر کئی بار دیکھا، اور ہر بار وہی سوال میرے دل کو چیرتا رہا:
"اُس بچی کی ماں کہاں تھی؟ کیا وہ اُس وقت زندہ تھی؟ کیا وہ اپنی بچی کو جلتا دیکھ رہی تھی؟"
یا شاید وہ ماں، خود راکھ ہو چکی تھی۔
میرا ہاتھ جل رہا تھا، مگر اُس لمحے مجھے اپنی تکلیف بےمعنی لگی۔
میں ایک آزاد ملک میں، اپنی مرضی سے زندہ ہوں، چوٹ لگے تو دوا موجود، آنکھ روئے تو کوئی سنبھالنے والا
مگر وہ بچی؟ اُس کی چیخیں تو شاید دنیا کے شور میں دب گئی تھیں۔
اللہ نے فرمایا ہے کہ شہید کو درد نہیں ہوتا۔
میں جانتی ہوں، یہ سچ ہے۔
مگر ماں…
ماں تو زندہ ہوتی ہے نا…
وہ کیسے اپنی بچی کو جلتے دیکھ کر خاموش رہتی ہوگی؟ اُس کا دل… اُس کے کلیجے پر کیا بیتی ہوگی؟
میں سوچتی رہی، اور اپنے زخم کو بھولتی گئی۔
میرا دل بس ایک ہی دعا کرتا رہا:
"یا اللہ، فلسطین کی ان ماؤں کو صبر دے ان بچوں کو سکون دے ان گھروں کو پناہ دے اور اس امت کو بیدار کر دے۔"
میں اب بھی اکیلی ہوں، میری ماں آج بھی میرے پاس نہیں ہیں۔ مگر میرے دل کے کسی کونے میں ایک اور ماں جاگ چکی ہے وہ ماں جو فلسطین میں اپنے بچے کی راکھ چومتی ہو گی۔
میرا ہاتھ اب بھی جل رہا ہے، پر شاید دل تھوڑا نرم ہو گیا ہے۔
تبصرہ لکھیے