ہوم << جسمانی معذوری: پاکستان میں چیلنجز اور مواقع - ڈاکٹر مسلم یوسفزئی

جسمانی معذوری: پاکستان میں چیلنجز اور مواقع - ڈاکٹر مسلم یوسفزئی

معذوری ہمارے معاشرے کا ایک اہم لیکن نظر انداز کیا جانے والا موضوع ہے۔ پاکستان میں لاکھوں لوگ جسمانی معذوری کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ کچھ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ تقریباً 6 سے 14 فیصد آبادی کسی نہ کسی معذوری سے متاثر ہے۔ یہ اعداد درست نہ بھی ہوں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان افراد کی مشکلات کو ہم اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں۔

میں نے ایک بار اپنے گاؤں میں ایک لڑکے کو دیکھا جو پیدائش سے ایک ٹانگ سے محروم تھا۔ وہ ہر روز اپنی بیساکھیوں کے سہارے سکول جاتا تھا۔ لیکن سکول میں نہ تو ریمپ تھا اور نہ ہی اس کے لیے کوئی خاص سہولت۔ وہ ہر روز سیڑھیاں چڑھنے کی جدوجہد کرتا تھا۔ اس کی ہمت دیکھ کر دل میں احترام تو پیدا ہوا، لیکن یہ سوچ بھی آئی کہ ہمارا نظام اسے کتنا مشکل بنا رہا ہے۔

جسمانی معذوری کے شکار افراد کو پاکستان میں کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ تعلیم تک رسائی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اکثر سکولوں میں ریمپ، لفٹ یا خصوصی سہولیات نہیں ہوتیں۔ نقل و حمل کا نظام بھی معذور افراد کے لیے سازگار نہیں۔ بسوں میں ریمپ یا بریل بٹن نہیں ہوتے۔ نتیجہ یہ کہ یہ افراد تعلیم اور ملازمت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 71 فیصد معذور افراد بے روزگار ہیں۔ یہ اعدادوشمار دل دہلا دینے والے ہیں۔

معاشرتی رویے بھی ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ ہمارے ہاں معذوری کو اکثر بیماری یا خیرات کی ضرورت سمجھا جاتا ہے۔ لوگ ترس کھاتے ہیں، لیکن قبولیت کم دیتے ہیں۔ ایک معذور خاتون نے مجھے بتایا کہ لوگ اسے بازار میں گھورتے ہیں یا غیر ضروری سوالات کرتے ہیں۔ یہ رویہ ان کی خود اعتمادی کو توڑ دیتا ہے۔ خاندان بھی کبھی کبھار انہیں چھپاتے ہیں، کیونکہ "لوگ کیا کہیں گے" کا ڈر ہوتا ہے۔

لیکن حالات مکمل طور پر مایوس کن نہیں ہیں۔ کچھ مواقع بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر، سندھ حکومت نے 2018 میں معذور افراد کے لیے ملازمتوں کا کوٹہ 2 سے بڑھا کر 5 فیصد کر دیا۔ کچھ غیر سرکاری تنظیمیں معذور افراد کو تربیت اور مواقع فراہم کر رہی ہیں۔ پاکستان کی بلائنڈ کرکٹ ٹیم نے 2002 اور 2006 میں ورلڈ کپ جیت کر ثابت کیا کہ معذوری صلاحیتوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں۔

ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ سب سے پہلے، معاشرے کو اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔ معذور افراد کو خیرات نہیں، مواقع چاہئیں۔ حکومت کو سکولوں اور عمارتوں میں ریمپ اور لفٹ لازمی کرنے چاہئیں۔ بسوں اور ٹرینوں کو قابل رسائی بنانا ہوگا۔ اساتذہ اور ڈاکٹروں کی خصوصی تربیت ضروری ہے۔ ہر ضلعے میں کم از کم ایک بحالی مرکز ہونا چاہیے۔
میں سوچتا ہوں کہ اگر ہم سب مل کر ایک قدم اٹھائیں تو یہ افراد ہمارے معاشرے کا کارآمد حصہ بن سکتے ہیں۔ ان کی ہمت اور صلاحیتوں کو موقع دیں تو وہ بھی ہماری طرح خواب پورے کر سکتے ہیں۔ یہ صرف ان کا نہیں، ہم سب کا معاشرہ ہے۔ آئیں، اسے سب کے لیے بہتر بنائیں۔

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر مسلم یوسفزئی

ڈاکٹر مسلم یوسفزئی اقرا نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں انھیں دلچسپی ہے۔ تحقیقی و تنقیدی نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ سماجی مسائل پر گہری نظر ہے۔ مختلف اخبارات اور آن لائن پلیٹ فارمز پر ان کے مضامین شائع ہوتے ہیں۔ علمی و عوامی مکالمے کو نئی راہوں سے روشناس کروانا چاہتے ہیں

Click here to post a comment