ہوم << غالب کی مشکل پسندی اور دیوانِ غالب کی آٹھویں غزل - عبیدالرحمن

غالب کی مشکل پسندی اور دیوانِ غالب کی آٹھویں غزل - عبیدالرحمن

غالب کو جو چیزیں غالب بناتی ہیں , ان میں سے ایک اس کا منفرد انداز بیاں ہے . انداز بیان میں ایک اہم بات اس کی مشکل پسندی ہے . پھر غالب کی مشکل پسندی میں بھی دو چیزیں ہیں : ایک یہ کہ , وہ مشکل الفاظ و تراکیب لے کر آ تا ہے , جو کہ اکثر فارسی کی ہوتی ہیں اور ان کا مفہوم بنظر واحد سمجھ میں نہیں آتا اور دوسرا , الفاظ کا مطلب سمجھنے کے بعد بھی ان کے حقیقی مفہوم و مراد تک پہنچنا آسان نہیں ہوتا . گویا اس کے ہاں دقیق معانی پائے جاتے ہیں . وہ اپنی راہ آپ بناتا ہے . اسے عام راہوں پر چلنا پسند نہیں . وہ سیدھے , عام اور روایتی مضامین کو بھی مشکل اور منفرد انداز میں پیش کر کے خاص بنا دیتا ہے . اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ قاری جب مشکلات عبور کر کے اصل مراد تک پہنچتا ہے , تو اسے ایک خاص قسم کا حظ حاصل ہوتا ہے اور وہ غالب کے فن کا قائل ہو جاتا ہے .

یہ پوری غزل غالب کی مشکل پسندی کی مثال میں پیش کی جاسکتی ہیں . الفاظ و تراکیب سے لے کر معانی و مفاہیم تک غالب کی مشکل پسندی کی صفت عیاں ہے. اس غزل کو پڑھنے اور سمجھنے کے عمل کے دوران ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم کسی زبانِ غیر کو پڑھ سمجھ رہے ہیں . حقیقت بھی یہی ہے کہ دو چار الفاظ کے علاوہ اس غزل کے تمام الفاظ فارسی کے ہیں .

غالب کہتا ہے کہ مجھے اپنے مشکل الحصول محبوب کا تسبیح کے دانوں کو شمار کرنے کا عمل بہت پسند آیا ہے . اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے شمارِ سبحہ سے میرے سامنے وہ منظر گھوم جاتا ہے اور وہ منظر بھی میرا انتہائی پسندیدہ ہے , جب میرا محبوب تسبیح کے دانوں کی طرح اپنی نگاہِ ناز سے سو سو لوگوں کے دل لے جاتا ہے. غالب کہتا ہے کہ یہ عاشقی کا فیض ہے کہ اب میرے لیے دائمی مایوسی کی حالت کو برداشت کرنا بھی آسان ہو گیا ہے , کہ
غم سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

اور میری یہ مایوسی اور غم کی حالت اب ہمیشہ رہنے والی ہے . اب میں نے اس حالت سے کبھی نہیں نکلنا . اس کا سبب یہ ہے کہ کشائش , جس نے مجھے اس مشکل حالت سے نکالنا تھا , اسے ہی میری یہ مشکل حالت پسند آ گئی ہے .

کہتا ہے کہ میرے قاتل محبوب کو جو یہ گلستان کی سیر کا شوق ہے , اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس قدر بے رحم , بے مہر اور ظالم ہے اور یہ آرزوئےِ سیرِِ گلستاں معشوق کی بے مہری کی عکاس اس لیے ہے کہ وہ بار بار باغ میں اس لیے جاتا ہے تا کہ وہاں جا بجا سرخ رنگ کے پھول دیکھے اور ان سرخ پھولوں سے اسے عاشق کا خون میں لت پت ہونا یاد آئے اور اسے عاشقوں کو خون میں لت پت دیکھنا بے حد پسند ہے . اس سے ہم بہ خوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کس قدر بے مہر اور ظالم ہے .
اس غزل کی بحر : بحر ہزج مثمن سالم
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن

اصلاح تلفظ : ہم اکثر لفظ مشکل کو کاف پر زبر کے ساتھ مُشکَل پڑھ دیتے ہیں , جب کہ کاف کے نیچے زیر ہے اور لفظ مُشکِل ہے , جیسا کہ اس شعر کے دیگر قافیوں کے تلفظ سے واضح ہے .