ایک کامیاب اور مؤثر لکھاری کے لیے تین بنیادی اوصاف بے حد ضروری ہوتے ہیں: حسنِ بیان، حسنِ ترتیب اور حسنِ انتخاب۔ یہ تین خوبیاں مل کر کسی بھی تحریر کو وہ جاذبیت عطا کرتی ہیں جو نہ صرف قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے بلکہ اسے آخر تک تحریر سے وابستہ بھی رکھتی ہے۔
حسنِ بیان تحریر کی روح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مصنف اپنے خیالات کو اس انداز میں بیان کرے کہ الفاظ دل کو چھو لیں، سادہ، رواں اور پراثر ہوں۔ ایسا انداز جو نہ صرف سمجھنے میں آسان ہو بلکہ قاری کے دل پر بھی اثر چھوڑے۔
حسنِ ترتیب سے مراد یہ ہے کہ تحریر کے اجزاء منظم ہوں۔ خیالات کی پیش کش میں ربط اور تسلسل ہو، باتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہوں اور تحریر پڑھنے والے کو کسی مقام پر الجھن یا بوجھ محسوس نہ ہو۔ اچھی ترتیب ہی تحریر کو خوبصورتی بخشتی ہے۔
حسنِ انتخاب ایک لکھنے والے کی فکری پختگی کا مظہر ہوتا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ کب، کہاں اور کس بات کے لیے کون سا لفظ، کون سی مثال یا کون سا انداز اپنائے گا۔ الفاظ، اسلوب اور موضوع کا درست انتخاب ہی تحریر کو قابلِ مطالعہ بناتا ہے۔
جب کسی تحریر میں یہ تین عناصر یکجا ہو جائیں تو وہ صرف معلومات فراہم نہیں کرتی، بلکہ دل و دماغ کو چھو جاتی ہے، سوچنے پر مجبور کرتی ہے، اور قاری کے اندر ایک بار پھر پڑھنے کی خواہش پیدا کرتی ہے۔ دراصل یہی وہ خوبیاں ہیں جو کسی بھی تحریر کو عام سے خاص بناتی ہیں اور لکھنے والے کو ایک مؤثر مصنف کا درجہ عطا کرتی ہیں۔
تبصرہ لکھیے