مون ریسٹورنٹ ناران کا مہنگا لیکن ایسا ہوٹل ہے کہ جہاں کا کھانا ذائقہ دار ہوتاہے۔ یہاں کے مالکان خوش اخلاق ہیں او ر مصیبت میں مبتلاء افراد کی مدد کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ہمیں انکی مدد کا تجربہ اس وقت ہوا تھا جب آج سے چند سال پہلے ہم سکردو سے واپسی پر جلکھڈ کے قریب ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ میں پھنس گئے تھے۔ ہمارے علاوہ بھی سینکڑوں سیاح اس لینڈ سلائیڈنگ کے باعث اپنی اپنی منزل مقصود تک پہنچنے سے قاصر تھے۔۔ چنانچہ ہم نے دیگر سیاحوں کے ساتھ اسی مون ریسٹورنٹ بیسر میں پناہ لی۔
اس ریسٹورنٹ کے مالکان و اہلکاران نے اس روز وہاں موجود سیاحوں کی جو مدد کی تھی وہ ناقابل بیان ہے۔اور اسکا میں تفصیلی ذکر اپنے کالمز میں کر چکا ہوں۔ اس لئے اب ہم جب بھی ناران جاتے ہیں تو مون ریسٹورنٹ بیسر جانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں تا کہ وہاں کھانا کھا کر اپنے طریقے سے ان کے مالکان کا شکریہ ادا کیا جائے۔ اس بار جب ہم سکردو جاتے وقت بیسر کراس کر چکے تو ہماری گاڑی کو ایک دوسری گاڑی نے پیچھے سے ہٹ کر دیا۔ غلطی سراسر دوسری گاڑی والوں کی تھی کیوں کہ انہوں نے پیچھے سے ہٹ کیا تھا لیکن وہ شائد کسی برگر گھرانے کے چشم و چراغ تھے اس لئے انکا مطالبہ تھا کہ ہمارا ڈرائیور انکی گاڑی ٹھیک کروا کر دے۔ بہر حال ہمارا ڈرائیور بھی پختون تھا۔ اس نے بھی ان کار والوں کا ناطقہ بند کئے رکھا اور بالآخر ان کار والوں کو ہمارا نقصان بھرنا ہی پڑ گیا۔
جب ہمارا فیصلہ ہو گیا تو گیتی داس پولیس چوکی والوں نے ہمیں مشورہ دیا کہ کیوں کہ مخالف پارٹی کے افراد کا تعلق گلگت سے ہے۔ ان کی وہاں کافی جان پہچان ہے۔ پھر ان کے طور طریقے بھی مناسب دکھائی نہیں دے رہے۔ جبکہ یہاں سے چند کلومیٹر کے بعد بابو سر ٹاپ سے گلگت بلتستان شروع ہو جاتا ہے۔ جہاں کے پی کے کی حدود اور ہماری اتھارٹی ختم ہو جاتی ہے۔ اس لئے ہمارے لئے مناسب ہو گا کہ ہم فی الحال آگے نہ جائیں بلکہ ہو سکے تو آگے جانے کا پروگرام بالکل ہی کینسل کر دیں۔بہر حال ہم نے آگے جانے کا پروگرام تو کینسل نہ کیا البتہ یہ فیصلہ کیا کہ ایک دو گھنٹے یہیں بیٹھ کر انتظار کر لیتے ہیں.۔سعدیہ کا کہنا تھا کہ یہیں پر انتظار کرنے سے بہتر ہے کہ ہم مون ریسٹورنٹ جا کر دوپہر کا کھانا کھا لیں۔ تا کہ ہمارا یہ وقت ضائع ہونے سے بچ جائے۔
مون ریسٹورنٹ وہاں سے دس۔ پندرہ کلومیٹر پیچھے تھا اور بابو سر ٹاپ جانے والی سڑکیں اس قدر خطرناک اور بڑے بڑے گڑھوں سے بھرپور تھیں کہ یہ دس پندرہ کلومیٹر کا واپسی کا سفر طے ہونے میں ایک گھنٹہ بھی ناکافی دکھائی دیتا تھا۔ بہر حال ہم مون ریسٹورنٹ پہنچے۔ کھانے کا آرڈر دیا تو پتہ چلا کہ ابھی تو کھانے کا وقت شروع ہی نہیں ہوا۔ ابھی تو ناشتے کا ٹائم ہے۔ چنانچہ ہمیں بھی مجبوراً گرما گرم پراٹھوں، انڈوں اور چنوں سے ناشتہ ”کم لنچ“ کرنا پڑا۔ اس دوران میں نے ویٹرز سے کسی پرانے منیجر کے بارے پتہ کیا تو ویٹرز نے بتلایا کہ وہ سامنے جو صاحب سرخ شرٹ میں ملبوس ہیں وہ یہاں گزشتہ چھ سات سالوں سے منیجر کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ان سے ملا۔ا ن کا شکریہ ادا کیا۔ ان کی اس مشکل وقت میں کی جانے والی مدد کی تعریف کی۔ جس پر وہ منیجر صاحب بھی کافی متاثر ہوئے۔ ان منیجر صاحب کے بعد میں نے اس ہوٹل کے مالک سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ اتفاق سے ہوٹل کے مالک جن کا نام شاید حسین دین تھا۔ وہیں ایک میز پر بیٹھے مہمانوں سے گپ شپ میں مصروف تھے۔ ان کا بھی شکریہ اد ا کیا۔ انہیں جلکھڈ لینڈ سلائیڈنگ والا واقعہ یاد تھا۔ وہ بھی سب سن کر بے حد خوش ہوئے، اور اس بات پر شکریہ ادا کیا کہ ہم نے ان باتوں کو یاد رکھا ہے اور فراموش نہیں کیا۔ بہرحال وہاں ان کے ساتھ تصویر بنوائی۔ اور پھر ناشتے سے لطف اندوز ہو کر اپنے سکردو کے سفر کا دوبارہ آغاز کیا۔
مون ریسٹورنٹ بارے ایک بات بتلادوں کہ یہاں پر نیٹ کی سروس دستیاب نہ ہے اور سیاح یہاں پہنچ کر یہ دیکھ کر بے حد پریشان ہوتے ہیں۔ کہ انکے اپنے پیاروں سے رابطے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔ لیکن اب یہاں شائد مون ریسٹورنٹ والوں نے سیاحوں کے لئے قیمتاً سمیں دینے کا طریقہ کار شروع کر دیا ہے۔ یہ طریقہ کار مہنگا تو ضرور ہے لیکن اس کے باوجود یہ سب کچھ سیاحوں کے لئے ذہنی سکو ن کا باعث ثابت ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ آج سے پندرہ بیس سال پہلے جب مون ہوٹل کے مالکان نے یہاں ہوٹل کی تعمیر شروع کی تھی تو یہ علاقہ بالکل ویران تھا۔ اور مون ہوٹل کی عمارت اس ویرانے میں پہلی عمارت تھی۔ یہاں کے لوکل بھی حیران تھے کہ اس ویرانے میں یہ ہوٹل چلے گا کیسے۔ لیکن اب اگر یہاں آکر دیکھیں تو حیرت کے سمندر میں ڈوب جائیں۔ اب مون ریسٹورنٹ کے ارد گرد بیسیوں دوکانیں اور ہوٹل تعمیر ہو گئے ہیں اور اب یہ جنگل، منگل کا روپ دھار چکا ہے۔
تبصرہ لکھیے