ہوم << شاہراہ قراقرم کا ڈراونا خواب - جاوید حسن

شاہراہ قراقرم کا ڈراونا خواب - جاوید حسن

مجھے اج بھی وہ دن واضح یاد ہے جب میں پیر ود ائی کے جم غفیر میں سکردو جانے کے لیے تیار کھڑا تھا. میرے ہمراہ میرا ایک قریبی دوست بھی موجود تھا ۔ ہر بار کی طرح میرا من اس بار بھی بوجھل ہوا جاتا تھا۔ مجھے پیر ودھائی کا یہ بے ڈنگا شور ہرگز اچھا نہیں لگتا تھا۔ اس پہ سفر کی طوالت اور راستوں کی ناہمواری مجھے زچ کر دیتی تھی ۔ شاہراہ قرا قرم پہ میں قریباً 20 بار آ جا چکا تھا۔اس سفر کو میں ایک طرح جوا کھیلنےیا سٹا لگانے کی مترادف سمجھتا ہوں، بس ان میں فرق اتنا ہے کہ جوئے میں سب ہار جانے کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہےاور یہاں منزلِ مقصود تک پہنچنے کی۔ ہمیشہ لوگوں اور بڑوں سے سنتے ایا تھا سکردو تا پنڈی راستہ بہت کٹھن ہے پر دل اس کو ہرگز تسلیم نہ کرتا تھا ۔ پھر ایک دن ایک بین الاقوامی کرییٹر ہیں" Ruhi Çene" ، ان کی ویڈیو دیکھی ان کی نیچ اس طرح کی ہے کہ زمین کو کھود کر اس کی وسط تک جائیں گے، یعنی ایڈونچرز کرنا ہی ان کی نیچ ہے۔

میں نے جو ویڈیو دیکھی وہ دنیا کی سب سے خطرناک شاہراہ کی بابت تھی ۔ اور وہ شاہراہ ، شاہراہ قرا قرم تھی۔ایسی شاہرا کہ جو سانپ سیڑھی کے کھیل کی طرح ہے۔ یہ شاہرا ہمالیہ کی بلند و بالا پہاڑیوں کو چاک کر کے سندھو دریا کے لیے گویا ایک سوکن کھڑی کی گئی ہے ۔ سندھ سائیں انسان کی اس سفاکی پر بہت نالہ ہے ، وہ استفسار کرتا ہے کہ کیوں اس سفاک انسان کو ہمالیہ کی بلند و بالا پربتوں نے اپنا گریبان چاک کر کے راستہ بنانے کی اجازت دی۔ سندھ سائیں کا خیال ہے کہ کچھ عرصہ قبل سوائے اس کے کسی کو مجال نہ تھی کہ سکردو کے خطے سے ہو کر کوہستان پہنچے اور پھر سندھو دریا کی پکڑ سے اوارہ ہو کر راولپنڈی ۔ اس پر ہمالیہ کی بلند و بالا پہاڑیاں جواب دیتی ہیں اے سندھو دریا ہماری رفاقت تو انسان سے بہت قبل کی ہے ۔ تجھے معلوم ہے کہ تو ہی مجھے وسیع عالم کی خبریں پہنچاتا ہے ۔ میرا وجود تو منجمد ہے تو ہی ہے جو مجھے لداخ سے ہو کر بلتستان کے حالات و واقعات سے اگاہ کرتا ہے ۔ میں بھی اس کے صلے میں تیرے شکم کو بھرنے کے لیے اپنے وجود سے پتھروں کو جدا کر کے بھیجا کرتا تھا.۔ پھر اس سفاک انسان نے مجھے تسخیر کر لیا اور تمہارے سامنے ایک سوکن لاکھ کھڑی کر دی۔مجھے بھی انسان سے کوئی لگاؤ نہیں ۔

شنید تو یہ بھی ہے کہ اس سفاک انسان نے دور کہیں چاغی کے مقام پر میری کچھ شناسا پہاڑیوں کو بھی جھلسا دیا ہے۔ خیر یہ کہ میں پہلے تیری شکم سیری کے لیے پتھر بھیجا کرتا تھا مگر آج سے انسان ہی تمہارا لقمہ بنیں گے۔ اس طرح سانپ بھی مرے گا اور بل بھی نہ ٹوٹے گا، یعنی تمہاری شکم سیری بھی ہوگی اور ناحق تمہاری سوکن" شاہرا قراقرم بھی بدنام ہوتی رہے گی۔ خیر شاید یہ ہمالیہ کی پہاڑیوں اور سندھو سائیں کے درمیان ہونے والی اک تاریخی گفتگو تھی۔ اس کے بعد جو ہوا اس کی ایک نظیر میں بھی ہوں۔ "ہم اپنی لاری میں بیٹھ گئے. قریب 30 نفر تھے لاری کی کمپنی کا نام اس لیے یاد نہیں کیونکہ سندھو دریا کے پانیوں نے میرے ذہن کی تمام معلومات کو خالی کر دیا ہے۔ کافی سفر کر کے کوہستان پہنچنے تک تو ہمیں کچھ بھی احساس نہ ہوا اور پھر ایک دم گاڑی مکمل طور پر ہچکولے بھرنے لگی ۔ گاڑی کےshock absorbers کی حالت اچھی ہونے کے باوجود بھی گاڑی مکمل طور پر سہم اٹھتی تھی. کئی بار تو یوں بھی ہوا کہ گاڑی ایک ایسے طریقے سے ہچکولے کھاتی تھی کہ بے ساختہ میرے منہ سے" یا اللہ" نکل اتا ،پھر بس دعا کرتا کہ یا رب اس بار سلامتی سے پہنچا دے اگلی بار اس راہ پہ ہرگز نہ چلوں گا ، پھر یہ بھی خیال اتا کہ اگر یہ میرے گناہوں کی بابت ہے تو پھر دوسرے سواروں کی کیا غلطی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی سوجھتا کہ اگر یہ میرے گناہوں کی پاداش ہے تو پھر اُن گناہوں کا کیا جو میرے زہن میں ہیں پر ابھی تک pending ہیں۔ بقول غالب،
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یا رب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے ۔

کافی دیر ہو چکی تھی رات کے 12 بج چکنے کے بعد بھی میرِ لاری کھانے کے لیے روکنے کو تیار نہ تھا۔ وہ نجانے کیا سوچ کر گاڑی چلا رہا تھا ، میرے شکم میں تو محظ چوہے دوڑ رہے تھے۔ اور شاید گاڑی میں سوار ہونے سے پہلے کا کھانا ہی میرا اخری کھانا تھا۔ کافی انتظار کرتا رہا کہ شاید گاڑی اب رکے مگر ہیچ ارزومندی ۔ نہایت تھکن کے بعد میری آنکھ لگ چکی تھی۔ اس کے بعد مجھے بس ایک بات یاد ہے کہ گاڑی ایک بار پھر شدید ہچکولے لے چکی تھی اور اس بار" اللہ اکبر" کا بے ساختہ کہے جانے والا ورد پوری گاڑی میں گونج اٹھا ۔ہماری قسمت کی سٹیرنگ میرِ لاری کے ہاتھ سے اٹھ چکی تھی۔ یہ آسمانی موڑ کا مقام تھا، اور لاری ہوا میں معلق لٹک رہی تھی ۔ ایک زوردار دھماکے کی اواز کے ساتھ رات گئے، ہم خالی شکم سندھو سائیں کے شکم کو بھرنے کے لیے بھیجے گئے تھے ۔لاری کے جھٹاک سے گر جانے کے بعد اس کے شیشے بھی ٹوٹ چکے تھے اور آہستہ آہستہ سندھ سائیں کا نمکین پانی ہماری موت کا فرشتہ بن کر گاڑی میں داخل ہوا ۔ یوں دریا بُرد ہو کر مجھے اس لافانی پانی کا حصہ بننے کا موقع ملا۔
میری آنگھ کھل گئی۔نہ جانے یہ یہ خواب کتنوں کے لیے حقیقت کی تعبیر لایا ہوگا۔۔۔۔