جب توپیں خاموش ہوں اور سرحدوں پر سکوت طاری ہو، تب بھی کچھ جنگیں جاری رہتی ہیں۔ وہ جنگیں جن کی دھمک نہ ٹی وی پر سنائی دیتی ہے، نہ پریس کانفرنسوں میں، لیکن وہ ہر روز ہمارے خواب، ہماری امیدیں اور ہمارا مستقبل نگل رہی ہوتی ہیں۔
ہم برسوں سے اس اندیشے میں زندہ ہیں کہ بھارت حملہ کر دے گا، جنگ چھڑ جائے گی، وطن خطرے میں پڑ جائے گا۔ لیکن وقت بار بار یہ ثابت کرتا رہا ہے کہ جنگیں محض شورش اور اشتعال سے نہیں ہوتیں۔ آج کی دنیا میں ریاستوں کو مٹانے کے لیے ٹینک اور طیارے نہیں، بلکہ اندرونی بگاڑ ہی کافی ہوتا ہے۔ اور اگر ہم سچائی کا سامنا کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ کسی بیرونی دشمن سے نہیں، بلکہ اپنے اندر سے ہے۔
پانی کا بحران، بجلی کا بحران، معاشی زوال، سیاسی عدم استحکام، اور اداروں کے درمیان عدم اعتماد — یہی ہماری فالٹ لائنز ہیں۔ ہم نے ایٹمی ہتھیار تو بنا لیے، لیکن انصاف کا نظام تعمیر نہ کر سکے۔ ہم نے دشمن کے خلاف منصوبے تو بنائے، لیکن اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دینے کا ارادہ کبھی نہیں کیا۔ ہم نے قومی غیرت کے نام پر جذبات تو بھڑکائے، لیکن کبھی اس غیرت سے سوال نہ کیا کہ ہمارا دستور کیوں پامال ہوتا رہا؟
اصل میدان جنگ وہ ہے جہاں روز عوام مہنگائی سے پس رہے ہیں، نوجوان بے روزگاری کے ہاتھوں مایوس ہو رہے ہیں، اور عوام اور ریاست کے درمیان اعتماد دم توڑ رہا ہے۔ ہمیں جس جنگ کی تیاری کرنی چاہیے، وہ قانون کی حکمرانی کی ہے، عدل کی بحالی کی ہے، اور اداروں کی آئینی حدود کے تعین کی ہے۔ایک ہم ہیں کہ سرحدوں پر جنگ کا انتظار کرتے ہیں، اور ایک وہ ہیں جو آئین، تعلیم، جمہوریت اور معیشت کے میدان میں مسلسل فتحیاب ہو رہے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی فوج کو پیشہ ور بنایا، ہم نے اسے سیاسی بنایا۔ انہوں نے سیاست کو جمہوریت میں ڈھالا، ہم نے اسے محض ایک کھیل بنا دیا۔
پاکستان اُس دن واقعی جیتے گا جب ہم اپنے اندر کی جنگ جیتنے کا حوصلہ پیدا کریں گے۔ وہ دن جب ہم مان لیں گے کہ دشمن ہماری صفوں میں موجود بے عملی، بدعنوانی اور بے اصولی ہے۔ اور یہ دشمن توپ و تفنگ سے نہیں، سچائی، انصاف اور علم سے شکست کھائے گا۔ کیونکہ بعض جنگیں صرف میدان میں نہیں، ضمیر میں لڑی جاتی ہیں۔ اور ضمیر کی جنگ جیتنا ہی اصل فتح ہے۔
تبصرہ لکھیے