ہوم << قربانی کے ایام اورجانورکے احکام - ڈاکٹرمولانامحمدجہان یعقوب

قربانی کے ایام اورجانورکے احکام - ڈاکٹرمولانامحمدجہان یعقوب

قربانی کے ایام:
ذوالحجہ کے مہینے کی دس، گیارہ اور بارتاریخ قربانی کے ایام ہیں۔

دس تاریخ کوقربانی کا اولین وقت:
شہری علاقوں میں عیدالاضحی کی نماز کی ادائیگی کے بغیر قربانی شروع کرنا جائز نہیں، گاؤں اور دیہات میں،جہاں نمازِ عید انہیں ہوتی، صبح صادق کے بعد قربانی کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔

شہری کی بھیجی ہوئی قربانی دیہات میں:
اگر کسی شہر کے رہنے والے نے اپنی قربانی کسی گاؤں میں بھیج دی ہے تو گاؤں میں ہونے کی وجہ سے صبح صادق کے بعد قربانی کا آغاز کیاجاسکتا ہے۔ یہ تفصیل صرف دس ذی الحجہ کے لیے ہے،کیونکہ نمازِ عید صرف دس ذی الحجہ کو ادا کی جاتی ہے۔

گیارہ اور بارہ تاریخ کو قربانی کا وقت:
گیارہ کونمازِ فجر سے پہلے بھی اور اسی طر ح رات کو بھی قربانی کی جاسکتی ہے۔قربانی کا وقت بارہ ذی الحجہ کو سورج کے غروب ہونے سے پہلے تک باقی رہتا ہے۔ رات کے اوقات میں قربانی کرنے کی صورت میں اتنی روشنی کا مناسب انتظام ہونا چاہیے کہ شریعت کی نگاہ میں ذبح کا عمل درست ہوجائے۔

قربانی کی قضا :
اگر ان مخصوص تاریخوں میں ذبح کا عمل نہ ہوسکے تو واجب ہونے کی وجہ سے ذمے پر باقی رہتا ہے، جس کی قضا زندگی بھر میں کسی بھی وقت کرنا ضروری ہے،جس کی صورت یہ ہے کہ جانور کی قیمت کسی مستحق کو دے دی جائے۔

قربانی کے جانور:
قربانی کے جانوروںمیںبکرا، بکری، دنبہ، دنبی، بھیڑ، بھیڑی، مینڈھا، مینڈھی، گائے، بیل، بھینس، بھینسا، اونٹ، اونٹنی شامل ہیں۔
نوٹ:ان کے علاوہ کسی جانور، پرندے وغیرہ کی قربانی اس کے حلال ہونے کے باوجود جائز نہیں۔

قربانی کے جانوروں کی عمریں:
بکرا، بکری مکمل ایک سال کے۔ گائے، بیل، بھینس، بھینسا مکمل دو سال کے ۔ اونٹ اونٹنی پانچ سال کے ہوناضروری ہیں۔ البتہ دنبہ، بھیڑ، مینڈھا(نر و مادہ)چھ ماہ کے ہوں، لیکن اتنے موٹے تازہ ہوں کہ ایک سال کے دکھائی دیتے ہوں تو ان کی قربانی درست ہے۔

قربانی کے عیب دار جانور:
مذکورہ بالا جانوروں میں پائی جانے والی بعض کمزوریاں اور عیوب قربانی کے لیے شریعت کی نظر میں رکاوٹ بنتے ہیں،لہٰذا قربانی کے جانوروں کا ان عیوب سے پاک ہونا ضروری ہے، اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
(1)اندھا ہونا۔ (2)کانا ہونا۔ (3)بھینگا ہونا۔
(4)ایک تہائی سے زیادہ بصارت و سماعت سے محروم ہونا۔
(5)ایسا لنگڑا جانور جو چلنے کے دوران چوتھی ٹانگ کا سہارا نہ لے سکتا ہو۔
(6)ایسا جانورجس کے دانت نہ ہوں۔
(7)ایسا جانور جو پاگل ہو گیا ہو۔
(8)ایسا جانورجو متعینہ عمر( بکرا، بکری مکمل ایک سال ، گائے، بیل، بھینس، بھینسا مکمل دو سال ،اونٹ اونٹنی پانچ سال،فربہ دنبہ، بھیڑ، مینڈھا(نر و مادہ)چھ ماہ ) سے کم ہو۔
(9)جس جانور کا کان یا دم یا چکتی ایک تہائی سے زیادہ کٹے ہوئے ہوں۔
(10)ایسا جانورجو ایسا کمزور ہوکہ اس کی ہڈیوں کا گودا تک ختم ہوگیا ہو اور خود چل کر قربان گاہ تک بھی نہ جاسکے۔
(11)ایسا جانورجوخارشی ہو۔
(12)ایسا جانورجس کے سینگ جڑسے اکھڑ گئے ہوں یا اتنے ٹوٹ گئے ہوں کہ اس کا اثر دماغ کی ہڈی تک پہنچ گیا ہو۔
(13)بکری کا ایک تھن اور گائے اور اونٹنی کے دونوں تھن سوکھ گئے ہوں ۔

خصی جانور کی قربانی:
شروع زمانے سے خصوصا ًبکرے کو مشین کے ذریعے خصی کرنے کا رواج رہا او رآج تک قائم ہے۔ نبیﷺ کے زمانے میں بھی یہ رواج موجود تھا اور نبیﷺ نے ایسے بکرے کی قربانی کو درست قرار دیاہے ،لہٰذا بکرے کا خصی ہونا عیب شمار نہیں ہوگااور خصی بکرے کی قربانی درست اور جائز ہے ۔

قربانی کے چھوٹے جانور میں شراکت؟
قربانی کے لیے جتنے چھوٹے جانور مخصوص کیے گئے ہیں، جیسے: بکرا، بکری، دنبہ، دنبی، مینڈھا، مینڈھی، بھیڑ، بھیڑی؛ اِن میں تو ایک سے زائد آدمی شریک نہیں ہوسکتے، یہ فی کس ایک ہی فرد کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔

قربانی کے بڑے جانوروں میں شراکت:
قربانی کے جتنے بڑے جانور ہیں، مثلا ً:گائے، بیل، بھینس، بھینسا، اونٹ، اونٹنی؛ اِن میں فی کس ایک جانور میں زیادہ سے زیادہ سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔

شراکت کی اہلیت کے لیے شرائط:
شرط یہ ہے کہ ایک بڑے جانور میں جو سات افراد شریک ہیں:
(۱) اُن سب کا عقیدہ درست ہو۔اُن میں کوئی کافریا مشرک نہ ہو،چنانچہ اہل سنت کے ساتھ اہل تشیع یاقادیانی بھی اسی طرح قربانی میں شریک نہیں ہوسکتے ،جس طرح یہودی،عیسائی،ہندو،پارسی،بدھ مت کے ماننے والے یا کسی بھی مذہب کے ماننے والے۔قادیانیوں کے لیے توقربانی سمیت شعائراسلام کا استعمال قانوناً جرم ہے،کیونکہ وہ آئینی طور پر کافر ڈکلیئرکیے جاچکے ہیں۔آئینی طور پرکسی کافرکے کافرڈکلیئرنہ کرنے سے بھی وہ مسلمان نہیں ہوتا،وہ بدستور کافر ہی رہتاہے،جیسے دنیا بھرکے لوگ کسی کتے کوبکراکہنے پر اتفاق کرلیں تووہ بکرانہیں بن جاتا،اس کی وجہ یہ ہے کہ کافرکو اس کا کفریہ عقیدہ کافر بناتاہے ،کسی کے کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی،چنانچہ لبرل وسیکولر حلقوں میں جو یہ مغالطہ آمیز بات مشہور ہے کہ مولوی جس کو چاہے کافر بنادیتے ہیں،یہ بات درست نہیں ہے،مولوی کسی مسلمان کوکافر بناسکتے ہیں اور نہ ہی کسی کافرکو مسلمان،مولوی صرف کافرکوکافر بتاتے ہیں،تاکہ سادہ لوح مسلمان اُس کے نام اور ظاہری وضع قطع کو دیکھ کراُسے مسلمان نہ سمجھ بیٹھیں۔
(۲)ان میں سے کسی کا حصہ ساتویں حصے سے کم نہ ہو، مالی حوالے سے بھی سات برابر کے حصے ہوں اور گوشت کے حوالے سے بھی،پیہ حصے اندازے سے نہیں، بلکہ تول کر کیے جائیں۔

Comments

Avatar photo

مولانا محمد جہان یعقوب

ڈاکٹر مولانا محمد جہان یعقوب فاضل درسِ نظامی ہیں۔ وفاقی اردویونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ جامعہ بنوریہ عالمیہ کراچی میں پبلی کیشنز، تصنیف اور صحافت کے شعبہ جات کے نگران ہیں۔ کئی کتب، رسائل اور ریسرچ جرنلز کے مصنف ہیں۔ اصلاحی و تحقیقی موضوعات پر سو سے زائد رسائل لکھ چکے ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا سے بطور کانٹنٹ رائٹر، کمپیئر اور اینکر منسلک ہیں۔

Click here to post a comment