دنیا بھر میں مغربی فکر سے متاثر قانون سازی کی جو لہر چل رہی ہے، اس کا ایک واضح عکس کم عمری کی شادیوں پر مکمل پابندی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ یہ وہ معاملہ ہے جسے عالمی ادارے’’بچوں کے حقوق‘‘کے خوشنما عنوانات کے ساتھ پیک کر کے پیش کرتے ہیں لیکن اس کے اندر چھپے مقاصد، نتائج اور تضادات کو اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں منظور ہونے والا حالیہ بل بھی اسی عالمی دباؤ اور فکری غلامی کی پیداوار محسوس ہوتا ہے جس میں 18 سال سے کم عمر لڑکی سے نکاح کو نہ صرف جرم بلکہ’’زیادتی‘‘قرار دیا گیا ہے۔ اس بل کے مطابق نکاح پڑھانے والے، رجسٹر کرنے والے، والدین اور سرپرست سب ہی مجرم قرار پاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے قوانین واقعتاً بچوں کے تحفظ کا باعث بنتے ہیں یا یہ خاندانی نظام، دینی اقدار اور معاشرتی توازن کو بگاڑنے کا ایک راستہ بن رہے ہیں؟
اگر دنیا کے دیگر ممالک میں ایسے قوانین کے بعد پیدا ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا جائے تو تصویر بالکل مختلف اور تکلیف دہ نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں ہر ریاست میں شادی کی کم از کم عمر مختلف ہے ۔ 2024کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کی 37ریاستوں میں کم عمری کی شادی قانونی طور پر جائز ہے اور کئی ریاستوں میں والدین یا عدالت کی اجازت سے 18 سال سے کم عمر میں بھی شادی کی گنجائش موجود ہے۔ Pew Research Center کے مطابق 2010 سے 2020 کے درمیان امریکہ میں 18 سال سے کم عمر لڑکوں اور لڑکیوں کی 200,000 سے زائد شادیوں کا اندراج ہوا جن میں کئی کیسز والدین کی رضا مندی سے ہوئے۔ لیکن جب سخت پابندیاں لگائی گئیں تو ان نوجوان لڑکیوں میں ناجائز تعلقات، خفیہ حمل، اسقاطِ حمل اور ذہنی دباؤ کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ اسی طرح فرانس میں شادی کی عمر 18 مقرر ہے مگر وہاں بھی Court Waiver کے ذریعے کم عمر لڑکیوں کی شادی کی اجازت دی جاتی ہے۔ لیکن ان پابندیوں کے بعد غیرقانونی تعلقات اور cohabitation یعنی بغیر نکاح کے رہنے کی شرح 60 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔
افریقی ممالک میں جہاں کچھ علاقوں میں شادی کی عمر 15 یا 16 سال مقرر تھی، عالمی دباؤ کے تحت جب اس عمر کو 18 کر دیا گیا تو وہاں معاشی استحکام کے بجائے جنسی جرائم، نوعمر ماؤں میں ذہنی امراض اور غیر شرعی تعلقات کا سیلاب آ گیا۔ UNICEF کی ایک رپورٹ کے مطابق جن ممالک نے کم عمری کی شادی پر مکمل پابندی لگائی، وہاں نوجوان لڑکیوں کے’’boyfriend pregnancies‘‘یعنی ناجائز حمل کی شرح میں 3 گنا اضافہ ہوا۔ انڈیا میں 2006 میں Prohibition of Child Marriage Act نافذ ہوا جس کے بعد UNICEF اور WHO کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بچوں میں جنسی تجربات کی شرح، خاص کر شہری علاقوں میں دوگنا ہو گئی۔ مذہبی گھرانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے لیے حلال طریقے سے نکاح کا راستہ بند ہوا جبکہ حرام کے تمام دروازے کھلے چھوڑ دیے گئے۔
یہی خطرہ اب پاکستان میں بھی منڈلا رہا ہے۔ ہمارے ہاں نکاح ایک مقدس بندھن اور شرعی فریضہ ہے جس کا مقصد صرف جنسی تعلقات کا قانونی اور پاکیزہ راستہ ہی نہیں بلکہ معاشرتی تحفظ، عزت کی حفاظت، اور نسل کی درست افزائش بھی ہے۔ دیہی علاقوں میں کئی جگہ لڑکیاں بلوغت کے بعد باقاعدہ ذہنی پختگی اور گھریلو ذمہ داریاں سنبھالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ وہاں اگر کوئی والدین اپنی بیٹی کا رشتہ رشتہ داری یا قبائلی مجبوریوں کی بنیاد پر 16 یا 17 سال کی عمر میں کر دیتے ہیں تو اسے جرم بنانا اور انہیں قید میں ڈال دینا انصاف نہیں، زیادتی ہے۔ کیا ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ باپ کو قید میں ڈال دے جو شرعی حدود کے اندر اپنی بیٹی کا نکاح کرتا ہے لیکن وہی ریاست زنا، جسم فروشی اور ہم جنس پرستی جیسے افعال پر خاموش تماشائی بنی رہے؟ نکاح پر پابندی دراصل حلال کے دروازے بند کر کے حرام کو فروغ دینا ہے۔ جب نکاح کو قانوناً اتنا مشکل بنا دیا جائے کہ بلوغت کے باوجود نوجوان لڑکا یا لڑکی نکاح نہ کر سکے تو پھر ان کے سامنے یا تو گناہ کا راستہ ہوگا یا نفسیاتی دباؤ کا جو اکثر خودکشی یا نفسیاتی بیماریوں میں بدلتا ہے۔ ایسے درجنوں کیسز پاکستان میں موجود ہیں جہاں لڑکی نے والدین کی مرضی سے شادی کی خواہش ظاہر کی مگر عمر کی رکاوٹ کی وجہ سے نہ ہو سکی اور نتیجتاً وہ یا تو گھر سے بھاگ گئی یا غلط راستے پر چل پڑی۔ کیا یہ قانون ان کی حفاظت کرے گا یا ان کی تباہی کا راستہ بنے گا؟
یہ قانون شرعی اصولوں سے متصادم ہے۔ اسلام میں نکاح کے لیے عمر نہیں بلکہ بلوغت اور رضامندی بنیادی شرط ہے۔ اگر کوئی لڑکی بالغ ہو چکی ہے اور اس کے ولی کی اجازت موجود ہے تو شرعی طور پر اس کا نکاح بالکل جائز ہے۔ اس بات پر تمام مکاتبِ فکر کا اجماع ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا جب وہ کم عمر تھیں اور یہ نکاح ایک تاریخی و شرعی مثال ہے۔ اب اگر کوئی نوجوان لڑکی بلوغت کے بعد نکاح کرنا چاہے اور ریاست اسے’’ریپ‘‘قرار دے تو یہ نہ صرف اسلام کی توہین ہے بلکہ کروڑوں مسلمانوں کے دینی جذبات کی پامالی ہے۔والدین ،علما ء اور نکاح خواں کو مجرم قرار دینا اور شادی کے خواہش مند نوجوانوں کو قید کی دھمکی دینا صرف ایک بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مقصد نکاح کو روکنا نہیں بلکہ خاندانی نظام کی جڑ کاٹنا ہے۔ جب خاندانی نظام بکھرے گا تو بچے ریاست کے رحم و کرم پر ہوں گے جنہیں وہ اپنی من پسند تعلیم، کلچر اور نظریہ دے سکے گی۔ یہ وہی سوچ ہے جو مغرب میں خاندان کو تباہ کر چکی ہے جہاں ایک ماں کے ساتھ کئی بچوں کے باپ الگ الگ ہوتے ہیں اور نکاح صرف ایک کاغذی کارروائی بن چکا ہے۔
پاکستان کو اگر ترقی دینی ہے تو اسے ایسے قوانین سے نہیں بلکہ اپنی دینی اور تہذیبی بنیادوں کی حفاظت سے ملے گی۔ اگر واقعی بچوں کا تحفظ مطلوب ہے تو ریاست زنا روکنے، فحاشی کو محدود کرنے اور والدین و علما ء کی رہنمائی کو قانونی تحفظ دینے کی طرف جائے۔ نکاح جیسے مقدس فریضے کو مجرمانہ قانون سازی سے دبانے کے بجائے، اس کی آسانی، ترویج اور شرعی دائرے میں حفاظت کے لیے قانون بنائے۔ورنہ وہ وقت دور نہیں جب پاکستان بھی مغرب کی طرح جنسی انارکی کا شکار ہو گا جہاں نہ عزت محفوظ ہو گی، نہ نکاح اور نہ نسل۔ اور اگر شرعی نکاح کے دروازے بند ہوں گے تو حرام کے دروازے خود بخود کھل جائیں گے۔ پھر نہ کوئی بل اسے روک سکے گا، نہ کوئی عدالت۔
تبصرہ لکھیے