حج اسلام کے ان پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے جن پر دینِ حنیف کی عمارت استوار ہے۔ یہ محض ایک رسمی عبادت یا سالانہ اجتماع نہیں بلکہ بندگی، روحانی ارتقاء، تقویٰ اور امتِ مسلمہ کی وحدت کا ایک ایسا عظیم الشان مظہر ہے جس کی نظیر دنیا کے کسی اور مذہب یا نظام میں نہیں ملتی۔ ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں مسلمان بیت اللہ کی طرف رخ کرتے ہیں اوراپنی انفرادیت کو قربان کر کے ایک امت بن کر اللہ کے در پر حاضری دیتے ہیں۔ قرآنِ حکیم میں حج کی فرضیت کا اعلان سورۃ آلِ عمران میں ان الفاظ میں فرمایا گیا: ترجمہ:ا’’ ور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے اور جو انکار کرے تو اللہ سارے جہان سے بے پرواہ ہے۔‘‘ (سورۃ آل عمران: 97) یہ آیت نہ صرف حج کی فرضیت کا بیان ہے بلکہ اس میں انکار کرنے والوں کے لیے ایک سخت تنبیہ بھی موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا‘ وہ دراصل دین کی ایک عظیم عبادت سے انکار کرتا ہے۔
حج کی تاریخ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے جڑی ہوئی ہے۔ قرآنِ مجید میں فرمایا گیا: ترجمہ: ’’اور یاد کرو جب ہم نے ابراہیم کو اس گھر کا صحیح مقام بتا دیا اور حکم دیا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع سجدہ کرنے والوں کیلئے خوب صاف ستھرا رکھو۔‘‘(سورۃ الحج: 26)۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ عمل نہ صرف توحید کی بنیاد تھا بلکہ بعد کی تمام امتوں کے لیے بندگی اور اطاعت کا ایک عملی نمونہ بھی۔
حج کی عبادات میں طواف، سعی، عرفات میں وقوف، منیٰ میں قیام، قربانی اور رمیِ جمرات شامل ہیں۔ یہ تمام اعمال دراصل اس سفرِ بندگی کے مختلف مراحل ہیں جن میں انسان اپنے نفس، خواہشات اور دنیاوی تعلقات کو پسِ پشت ڈال کر صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے سرگرداں ہوتا ہے۔ احرام پہننا، ظاہری زیب و زینت ترک کرنا، اپنے آپ کو سب کے برابر محسوس کرنا، یہ سب تقویٰ کے عملی مظاہر ہیں۔ جیسا کہ قرآنِ حکیم میں فرمایا گیا: ترجمہ:’’ حج چند معلوم مہینے ہیں تو جو اِن میں حج کی نیت کرے توحج میں نہ عورتوں کے سامنے صحبت کا تذکرہ ہو اورنہ کوئی گناہ ہو اور نہ کسی سے جھگڑاہو۔ ‘‘(البقرہ: 197)۔ حج محض ظاہری اعمال کا مجموعہ نہیںبلکہ نفس کی تربیت، نیت کی اخلاص اور اللہ کی خشیت کا ایک میدان ہے۔ حاجی جب لاکھوں کے ہجوم میں بھی اپنے رب سے تعلق جوڑتا ہے تو وہ گویا اعلان کرتا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت، کوئی رتبہ اور کوئی شناخت، اللہ کے حضور اس کے عاجز بندے ہونے کے مقام سے بلند نہیں۔ حج کا یہ تصور تقویٰ کو محض دل کی کیفیت سے نکال کر عملی زندگی کا دستور بنا دیتا ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حج کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:ترجمہ:’’ اور حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ (صحیح مسلم:3289)۔ اسی طرح فرمایا: ترجمہ: ’’جس شخص نے اللہ کے لیے اس شان کے ساتھ حج کیا کہ نہ کوئی فحش بات ہوئی اور نہ کوئی گناہ تو وہ اس دن کی طرح واپس ہو گا جیسے اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ ‘‘(صحیح بخاری: 1521)۔یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حج ایک روحانی ولادتِ نو ہے جس میں انسان اپنے سابقہ گناہوں سے پاک ہو کر ایک نئے، بہتراور خدا شناس انسان کی حیثیت سے زندگی کا آغاز کرتا ہے۔
حج نہ صرف فرد کی تربیت کرتا ہے بلکہ امتِ مسلمہ کی وحدت کا عظیم مظہر بھی ہے۔ مختلف رنگ، نسل، زبان، قوم، علاقے، معاشرت اور درجات سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد جب ایک ہی لباس میں، ایک ہی اعمال بجا لاتے ہیں اور ایک ہی کلمۂ توحید کی صدا بلند کرتے ہیں تو یہ منظر پوری دنیا کو بتاتا ہے کہ اسلام کسی ایک قوم، نسل یا علاقے کا مذہب نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہدایت کا پیغام ہے۔ حج کی یہی مساوات اور اجتماعیت امت کو اخوت، بھائی چار ہ اور باہمی ہمدردی کا عملی سبق دیتی ہے۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حج کے موقع پر مسلمانوں کو جو نظم و ضبط، صبر و تحمل، صفائی، ایثاراور ایک دوسرے کے حقوق کا پاس رکھنے کی تلقین کی جاتی ہے، وہ محض ان ایام کے لیے نہیں بلکہ پوری زندگی کے لیے ایک تربیتی نصاب ہے۔ اگر یہی روح ہر مسلمان کی زندگی میں جاری و ساری ہو جائے تو امتِ مسلمہ دنیا میں امن، عدل، اخلاق اور ترقی کا نمونہ بن سکتی ہے۔
اسی طرح قربانی جو حج کا ایک اہم رکن ہے، وہ محض جانور ذبح کرنے کا نام نہیں بلکہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی اس عظیم قربانی کی یاد ہے جہاں ایک باپ نے اللہ کے حکم پر اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا عزم کیا اور بیٹے نے بھی سرِ تسلیم خم کر دیا۔ قرآن میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے الفاظ نقل کیے گئے: ترجمہ: ’’اے میرے باپ کیجیے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے۔ ‘‘(سورۃ الصافات: 102)۔یہ جذبۂ قربانی دراصل بندگی کا ایسا نمونہ ہے جو رہتی دنیا تک تمام مومنوں کے لیے مشعل راہ ہے۔افسوس کی بات ہے کہ آج حج کو بھی محض ایک رسم، یا روحانی سیاحت بنا دیا گیا ہے۔ حاجی بیت اللہ تو پہنچتے ہیں مگر دل و دماغ وہی دنیا کے سود و زیاں میں الجھے رہتے ہیں۔ حج کے ظاہری اعمال تو ادا ہوتے ہیں مگر تقویٰ، اخلاص، بندگی اور امت کی وحدت کا شعور ناپید رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حج کے بعد بھی ہمارے معاشروں میں ظلم، جھوٹ، فریب، عصبیت اور خودغرضی کی روش برقرار رہتی ہے۔ اگر واقعی ہم حج کو اس کی روح کے مطابق ادا کریں تو ہر حاجی اپنے معاشرے میں ایک متحرک اصلاحی قوت بن کر لوٹے۔
حج کا پیغام واضح ہے کہ ہم سب اللہ کے بندے ہیں، ہماری حیثیت اُس کے دربار میں برابر ہے اور ہماری نجات کا انحصار نہ ہمارے مال و دولت پر ہے، نہ نسل و نسب پربلکہ تقویٰ پر ہے۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا: ترجمہ: ’’بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے۔‘‘ (سورۃ الحجرات: 13)۔ حج اسی تقویٰ کے حصول کا عظیم موقع ہے۔اسی طرح حج ہمیں وقت کی عظمت کا بھی سبق دیتا ہے کہ کس طرح مخصوص اوقات میں مخصوص اعمال بجا لانے سے عبادت کی قدر و قیمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ وقوفِ عرفہ جو حج کا رکنِ اعظم ہے، اس کا وقت متعین ہے۔ اگر حاجی وہ وقت گنوا دے تو حج مکمل نہیں ہوتا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ بندگی صرف عمل کا نام نہیں بلکہ اس کے وقت، طریقے اور نیت کی مکمل پابندی کا نام ہے۔
الغرض حج دراصل ایک جامع تربیتی نظام ہے جو ایک مسلمان کو اللہ کا سچا بندہ، امت کا مخلص فرد اور انسانیت کا خیرخواہ بننے کی طرف لے جاتا ہے۔ اگر ہم حج کو اس کی اصل روح، مقصد اور تعلیمات کے ساتھ ادا کریں تو نہ صرف فرد کی زندگی بدل سکتی ہے بلکہ امت کا مقدر بھی سنور سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حج کو محض عبادت سمجھنے کے بجائے ایک مکمل انقلابی تربیت گاہ کے طور پر اپنائیں تاکہ ہماری بندگی خالص ہو، ہماری صفوں میں وحدت ہو اور ہمارے دل تقویٰ کے نور سے منور ہو جائیں۔
تبصرہ لکھیے