میں نے پیدا ہوتے ہی اسے دیکھا۔ اب بھی دیکھ رہا ہوں۔ لوگ کہتے ہیں وہ مر گیا، مگر میں اب بھی اسے دیکھتا ہوں۔
میں پیدا ہوا تو وہ تھا۔ اپنے عروج پہ اور اسے اندیشہ زوال نہ تھا۔ میرے اردگرد خاموشی تھی۔ سب چپ تھے بس وہ بولتا تھا۔ سب سہمے ہوے تھے اور بس وہ مسکراتا تھا۔ اس کی ایک تصویر میری ایک پھوپھی کے گھر لگی تھی۔ میں جب بھی وہاں جاتا تو اسے خود کو گھورتے ہوے پاتا۔ اس کی گہری دھنسی ہوئی آنکھیں مجھے گھورتی تھیں اور میں اس کمرے میں جہاں بھی کھڑا ہو کر دیکھتا، وہ مجھے ہی گھور رہا ہوتا۔ اک دن میری ماں نے مجھے باہر نہیں نکلنے دیا۔ میں بہت شرارتی تھا، بڑوں کی ٹانگوں سے نکل کر گیٹ سے باہر چلا جاتا تھا۔ مگر اس دن میں نے بھی کوئی تیزی نہیں دکھائی۔ اماں نے بہت خوفزدہ سا ہو کر بتایا تھا کہ باہر کرفیو لگا ہے۔ جو نظر آ گیا گولی مار دیتے ہیں۔ کرفیو، گولی یا موت کا تو مجھے کیا معلوم تھا مگر اماں کے چہرے پہ چھائے خوف نے یہ احساس دلایا کہ کچھ بہت برا ہے۔ یہ اس کے پھیلائے خوف سے پہلا تعارف تھا۔
ابھی چند ہی سال کا تھا کہ وہ مر گیا۔ اک یاد ہے کہ ٹی وی پہ کوئی رو رو کر اسے پکارتا تھا۔ اور ٹی وی کے سامنے بیٹھی میری پھوپھی غش کھاتی تھی۔ اور میں پریشان تھا کہ پھوپھی کیوں روتی ہے۔ جب کئی گھنٹے گزر گئے تو میرے والد نے اکتا کر کہا، چل بس کر، بھٹو نو تے جنازہ وی نہیں مِلن دتا انھے۔ (چل رونا بند کر، بھٹو کا تو اس نے جنازہ بھی نہ ہونے دیا)۔ یہ بھٹو کے نام سے میرا پہلا تعارف تھا۔ میں اپنے ابا کا بڑا اور اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے خاندان بھر کا لاڈلا تھا۔ ناز میرے ایسے ہی اٹھائے گئے جیسے پیدا ہو کر میں نے اس خاندان پہ کوئی احسان کیا۔ سنا تھا کہ میرے تایا کو اس سے بہت نفرت تھی، کیونکہ بھٹو سے بہت محبت تھی۔ نجانے میرا ایوب خان کے قد بت والا شدید عبادت گزار تایا، جس کو رات کسی نے کبھی سوتے نہیں بس عبادت کرتے ہی دیکھا، شرابی بھٹو سے محبت اور ایک نیک سے نفرت کیوں کرتا تھا۔ ایک دن شرارت سے میں نے ان کے کمرے میں پھوپھی کے گھر سے لا کر اس کی تصویر رکھ دی۔ تایا آئے تو دیکھ کر گورا چٹا چہرہ سرخ ہو گیا۔ شیر کی طرح دھاڑے کہ یہ کون لایا؟ سارا گھر سہم گیا اور کسی نے دبی سی آواز سے میرا نام لیا۔ کچھ دیر غصے پہ قابو پانے کے بعد بولے، جا پتر اسے پھوپھی کو دے دے، جب بڑا ہو گا جہاں دل مانے گا لگا لینا۔
سال گزرے اور میں شعور کو پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ وہ مر گیا مگر ہر جگہ تھا۔ میری کتاب میں اس کا دیا نظریہ تھا۔ میرے ٹیچر اس کی دی زبان بولتے تھے۔ مجھے پڑھانے والے مولوی صاحب کے لیے وہ شہید تھا۔ جو اسے گالی دیتے تھے، وہ بھی اسی کی دی ہوئی تعلیم کو مانتے تھے۔ حتی کہ اس کے مقتول بھٹو کی بیٹی اسی کے دیے نظریے کے مطابق ہمسائیوں میں طالبان تیار کرتی تھی۔ اسی کا بویا بیج اب شجر ہے، مگر سایہ نہیں دیتا، آگ برساتا ہے۔ جو آگ اس نے سرحد پار بھیجی تھی، وہ لوٹ کر آئی ہے۔ نفرت کا جو پودا اس نے گھر کے اندر بویا تھا، اس کے زہر سے نئی نسل نیلی پیدا ہو رہی ہے۔ ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے، اس کی زبان پہ شعلے ہیں، اور دماغ میں بھس۔ شعلے نکالتا نکالتا وہ خود ہی جل جاتا ہے۔
عرصہ ہوا تایا جی مر گئے۔ زندہ ہوتے تو کہتا کہ میں نے وہ تصویر بڑے ہو کر کہیں بھی نہیں لگائی۔ نہ گھر میں، نہ دل میں اور نہ ہی سوچ میں۔ مگر وہ بھوت تو زندہ ہے۔ تصویر سے بے نیاز۔ ہر طرف دیکھتا ہے اور ہر روز کچھ نئے بھوت بنا دیتا ہے۔ بھوت بڑھتے جا رہے ہیں، انسان کم رہ گئے۔
Good
بے مقصد
بے معنی
تحریر
بہت خوب