ہوم << جب قیادت بدنیت ہو - محمد قاسم مغیرہ

جب قیادت بدنیت ہو - محمد قاسم مغیرہ

جب کسی ملک کی قیادت بدنیت ہو تو ملک کو اپنے جغرافیائی محل وقوع کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ تجارتی گزر گاہیں کسی کام نہیں آتیں۔ اس ملک کی تزویراتی اہمیت صرف نصابی کتب تک محدود ہوتی ہے۔ معدنیات کسی کام نہیں آتے اور ملک کو عملاً کسی شے کا خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچتا۔

جب قیادت بدنیت ہو تو ایک زرعی ترقی کی بھرپور صلاحیت رکھنے والے ملک کی زمینیں بھوک اگلتی ہیں اور اس کے دریا پیاس بانٹتے ہیں۔ کسان، افسر شاہی کے اشارہ ابرو کے منتظر رہتے ہیں۔ ملکی پیداوار ملک میں ہی گراں ہوتی ہے۔ افتادگان خاک آٹے کے حصول کے لیے عزت نفس کی نقدی ہاتھوں میں تھامے لمبی لمبی قطاروں میں پامال ہوتے رہتے ہیں۔

جب قیادت بدنیت ہو تو ملک کے سب سے بڑے پوٹینشل یعنی نوجوانوں سے فائدہ اٹھانے کے بجائے انہیں ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیتی ہے۔ بدنیت قیادت نوجوانوں کی صلاحیتوں کو زنگ لگا دیتی ہے۔ قیادت کی نااہلی نوجوانوں کو جرائم، تشدد اور قتل غارت پر ابھارتی ہے۔ بدنیت قیادت نوجوانوں کو تخریب کاری کے اندھے کنویں میں دھکیل دیتی ہے۔

بدنیت قیادت ملک کی اربوں ڈالر کی صنعت یعنی سیاحت سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھاتی۔ فطری خوب صورتی، تاریخی عمارات ، مذہبی مقامات مقدسہ اور ثقافتی تنوع کے سبب دنیا بھر سے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچنے کی بھرپور صلاحیت رکھنے والا ملک اقوام عالم کے سامنے جھولی پسارے کھڑا ہوتا ہے۔

جب قیادت بدنیت ہو تو انصاف ایک کم یاب جنس بن جاتی ہے۔ اس کا حصول سیم و زر اور درہم دینار کی فراوانی پر منحصر ہوتا ہے۔ ایک بد نیت قیادت عدالتی اصلاحات کی طرف توجہ نہیں دیتی۔ انصاف کی عدم دست یابی لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے پر مجبور کر دیتی ہے۔

ایک بدنیت قیادت اپنے مفاد کو ملکی مفاد پر ہمیشہ مقدم جانتی ہے اور اس کے حصول کے لیے قوم کو کسی بھی آزمائش سے دو چار کرسکتی ہے۔ ملک پر کیسی ہی قیامت ٹوٹ پڑے، اشرافیہ اپنے مفادات قربان نہیں کرتی بل کہ عوام سے قربانی کا مطالبہ کرتی ہے۔ سخت فیصلوں کی " نوید" سناتی ہے اور بے حسی اور سفاکیت کا مفاد پرستانہ کھیل جاری رکھتی ہے۔

جب قیادت نااہل ہو تو ٹیکس چوری کو فروغ ملتا ہے۔ اشرافیہ بھی ٹیکس چوری میں ملوث ہوتی ہے اور اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کی یقین دہانی کے عوض کچھ لوگوں کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیتی ہے اور اس کا بوجھ تن خواہ دار طبقے پر لاد دیتی ہے۔

بدنیت قیادت کو ملک کے باصلاحیت افراد سے مستفید ہونے میں کوئی دل چسپی نہیں ہوتی ۔ اس کے بجائے سیاسی اشرافیہ اقربا پروری کو ترجیح دیتی ہے۔ بد نیت قیادت کو ڈاکٹر فیاض عالم کی صلاحیتوں سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب زیتون اور تیل پیدا کرنے والے دیگر درختوں ، پودوں اور بیجوں کے حوالے سے وسیع معلومات اور تجربہ رکھتے ہیں لیکن بدنیت قیادت کا ان باتوں سے کیا لینا دینا۔

بدنیت قیادت اظہارِ رائے کی آزادی سے خوف زدہ رہتی ہے اور ہاتھ عوام کی نبض پر رکھنے کے بجائے ان کی گردن پر رکھتی ہے اور عوام کی شکایت دور کرنے کے بجائے ان کی آواز دبانا پسند کرتی ہے۔

جب قیادت بدنیت ہو تو خود احتسابی سے گریز کرتی ہے اور الزام تراشی کا کھیل کھیلتی ہے۔ بار بار برسر اقتدار آنے والی جماعتوں کے ہاں آج بھی خود احتسابی کی شدید کمی ہے۔ جب بھی کارکردگی کا سوال ہو تو یہ سیاسی جماعتیں الزام تراشی کا سہارا لیتے ہوئے پتلی گلی سے نکل جاتی ہیں۔

جب قیادت بدنیت ہو تو عام آدمی ہر جگہ بے توقیر ہوتا ہے۔ اس کی عزت دفتروں ، بازاروں، کارخانوں اور عدالتوں کچہریوں میں کوڑیوں کے بھاؤ بکتی ہے۔ اسے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں۔ ایک غریب عورت نے اپنی بپتا سنائی کہ ایک روز گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا تو اس نے اپنے بچوں کو مسجد میں ایک محفل میں بھیج دیا کہ وہاں سے جو کھانا ملے خود بھی کھائیں اور اس کے لیے بھی لے آئیں۔ ہمارے گرد و پیش پھیلی عسرت و افلاس کی یہ سچی کہانیاں گڈ گورننس کے دعوؤں کا منہ چڑا رہی ہیں۔

جب قیادت بدنیت ہو تو طبقاتی تقسیم گہری ہوتی چلی جاتی ہے ۔ ایک طرف مال و متاع کے انبار تو دوسری طرف مفلسوں کی لمبی قطار، اک طرف غریب آدمی پامال تو دوسری طرف اشرافیہ کے کتے بھی خوش حال۔ عوام کے لیے جوہڑوں کا پانی اور پالتو کتوں کے لیے منرل واٹر۔

بدنیت قیادت پس ماندہ ذہن رکھتی ہے، جدت سے خوف زدہ رہتی ہے ، آئین نو سے ڈرتی ہے ، طرز کہن پہ اڑی رہتی ہے۔ اقوام عالم جدت سے ہم آہنگ ہوتی چلی جاتی ہیں جب کہ بدنیت قیادت عوام کو پس ماندہ رکھتی ہے۔ دنیا ستاروں پر کمندیں ڈال رہی ہے اور بدنیت قیادت نے لوگوں کو آٹے کے حصول کے لیے قطاروں میں کھڑا کر رکھا ہے۔

بدنیت قیادت اپنی بنیادی ذمہ داریوں یعنی عوام کو تعلیم کی فراہمی اور علاج معالجے کی سہولیات سے بھی فرار چاہتی ہے۔ اس بدنیتی کے سبب تعلیم اور صحت پر اب نجی شعبے کی اجارہ داری ہے۔ نجی شعبہ عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتا ہے اور احتساب اور ٹیکس۔ دونوں سے مستثنیٰ ہے۔

بدنیت قیادت اپنے ملک کو اقوام عالم میں قابل عزت مقام نہیں دلاسکتی۔ اس کی کوئی واضح خارجہ پالیسی نہیں ہوتی۔ دنیا میں اس کا کوئی قابل اعتماد دوست نہیں ہوتا۔ یہ آزادانہ تجارتی معاہدے کرنے سے گھبراتی ہے اور اپنے ہم سایہ ملک سے گیس کے حصول کے لیے اقوام عالم کے اشارہ ابرو کی منتظر رہتی ہے۔

بدنیت قیادت عوام کو ترقی کے ناقص تصور اور شعبدہ بازی سے بہلانے کی کوشش کرتی ہے۔ کبھی اخبارات میں اشتہار دے کر ترقی ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے، کبھی پریس کانفرنس کرکے ، کبھی کسی ٹاک شو میں ، کبھی سوشل میڈیا پیج پر، کبھی جلسوں میں۔ ترقی ہر جگہ ہورہی ہوتی ہے لیکن ادارے خسارے میں ہوتے ہیں، عام آدمی بے توقیر ہوتا ہے اور بجلی اور گیس کے بل عوام کا بھرکس نکال دیتے ہیں۔ کمر توڑ مہنگائی عوام کا جینا دو بھر کر دیتی ہے۔ لیکن ترقی کے دعوے ہر دست یاب فورم پر بہت اعتماد سے کیے جاتے ہیں۔

بدنیت قیادت جمہوریت کے فلک شگاف نعرے تو لگا سکتی ہے لیکن عملاً اپنے خاندان کے علاوہ سوچنے کی سکت نہیں رکھتی اور جمہوریت سے خوف زدہ رہتی ہے اور متبادل قیادت کی فراہمی کے تمام ذرائع مسدود کر دیتی ہے۔ با اختیار بلدیاتی نظام، انٹرا پارٹی الیکشنز اور سٹوڈنٹ یونین کے نام سے سہم جاتی ہے مبادا متبادل قیادت میسر آ جائے ۔ بدنیت قیادت خود کو بلند قامت ظاہر کرنے کے لیے اپنے گرد بونوں کی ایک فوج جمع کرلیتی ہے۔ بدنیت قیادت انتخابی ، عدالتی اور انتظامی اصلاحات سمیت ہر اس چیز، جس سے عام آدمی کو سکھ کا سانس مل سکتا ہے ، سے خوف زدہ رہتی ہے۔

Comments

Avatar photo

محمد قاسم مغیرہ

محمد قاسم مغیرہ پنجاب سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہیں۔ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد سے انگریزی ادب اور یونیورسٹی آف گجرات سے سیاسیات کی ڈگری رکھتے ہیں۔ سیاسی و سماجی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ پاکستانی سیاست، ادب، مذہب اور تاریخ کے مطالعہ میں دلچسپی ہے۔

Click here to post a comment