ہمارے ہاں ایک کہاوت ہے:
دھیان شوہدیاں ، اندر وڑیاں تاں چوہیاں ٹکیاں، باہر نکلیاں تاں کواواں پٹیاں( بیٹیاں بے چاری گھر کے اندر ہوں تو چوہے کترتے ہیں، باہر نکلیں تو کوے نوچتے ہیں)۔ دوسرے لفظوں میں بقول سلمان حیدر لڑکیاں ، عورتیں اور بچیاں خطرے میں ہیں۔
ہمارے ملک میں کوئی شخص قتل ہو تو قصور وار قاتل ہوتا ہے، پر مقتول عورت ہو تو پورا معاشرہ اس کا جرم تلاشنے میں لگ جاتا ہے کہ جس کی بنا پر وہ قتل ہوئی۔ قتل چھوڑیں لڑکی تو جوانی میں قدرتی موت مر جائے تو چہ مگوئیاں شروع ہو جاتی ہیں کہ اتنی جوانی میں قدرتی موت کیسے آ سکتی ہے؟
پچھلے سال گرمیوں کی چھٹیوں میں ہماری ایک سٹوڈنٹ کا بلڈ پریشر لو ہوا اور اچانک فوت ہوگئی ۔
ہمارے پڑوس سے خاتون مجھ سے پوچھنے آئی کہ تمہارے پاس پڑھتی تھی تمہیں تو پتا ہوگا کیسی لڑکی تھی؟
جاتے جاتے کہہ رہی تھی ہوگا کوئی چکر شکر اور گھر والوں نے مار ڈالی ہوگی یا خود کشی کی ہوگی ، بھلا بی پی لو ہونے سے کون مرتا ہے۔
پہلے طوائفیں بری ہوا کرتی تھیں اس لیے ان کے قتل پر کہا جاتا تھا کہ خس کم جہاں پاک، پھر پڑھی لکھی عورتیں بری ہو گئیں کہ وہ گھر کی چار دیواری سے باہر جو نکل کے جاتی ہیں، پھر کام کرنے والی عورتیں واجب القتل ٹھہریں، ظاہر ہے مردوں کے ساتھ کام کریں گی تو خراب تو ہوں گی۔ آج کل سوشل میڈیا پر موجود عورتیں بری ہیں ۔ ان پر کیا موقوف گھر بیٹھی عورتیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔
بہت کہانیاں ہیں اتنی کہ قلم سوکھ جائے۔
ہماری طرف جب گریٹر تھل کینال پراجیکٹ کے تحت پہلی بار نہر آئی تو ہم سکول جایا کرتے تھے تب ساتھ کے گاؤں میں ایک شخص نے سر میں وہولا (کھیتوں سے جڑی بوٹیاں اکھاڑنے کا اوزار) مار کے اپنی بیٹی کو قتل کر دیا اور لاش نہر میں پھینک دی۔ اس لڑکی نے کبھی سکول کی شکل نہیں دیکھی تھی ۔ میں نہیں جانتی لڑکی کا قصور کیا تھا پر مجھے خون کی وہ بو یاد ہے جو ان لوگوں کے گھر میں پھیلی ہوئی تھی۔ جس دن لڑکی کی لاش ملی اس دن بارش ہورہی تھی موسلا دھار بارش ۔ دوسرے دن قاتل و مقتولہ کی گھر لوگ جمع تھے ، تار پر اوچھاڑ (مردے کے اوپر ڈالے جانے والے کپڑے) پھڑپھڑا رہے تھے ہر طرف خون کی بو پھیلی تھی حالانکہ خون کہیں نہیں تھا ۔ مجھے مسلسل ابکائیاں آرہی تھیں۔ اس کے بعد کیا ہوا ؟ باپ مدعی بن گیا اس کے کہنے پہ بھائی نے قتل کا الزام اپنے سر لے لیا اور چار ماہ میں باہر آگیا ۔
اگست دو ہزار تئیس میں باپ کی فائرنگ سے قتل ہونے والی میانوالی کی ڈاکٹر سدرہ کی کہانی تو ابھی کل کی بات ہے، وجہ کیا تھی کزن میرج سے انکار۔ میں نہیں جانتی اس کیس کا کیا بنا؟ باپ کو سزا ہوئی یا نہیں ہوئی پر ڈاکٹر سدرہ کی زندگی اور خواب تو ایک ساتھ دفن ہوگئے۔
اب ثناء یوسف کے قتل کے جواز تراشنے والے اور وہ بھی مذہب کی آڑ لے کر اس ظلم کو درست قرار دینے والے بتا سکتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بعد میں خلفائے راشدین کے ادوار میں کتنی عورتیں غیرت کے نام پر یا شادی یا تعلق بنانے سے انکار پر ماری گئی تھیں؟
یہاں سارا الزام مرد پر ڈال دینا بھی منصفی نہیں ہے۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ اسی فیصد کیسز میں عورت کے قتل پر اکسانے والی دوسری عورتیں ہوتی ہیں۔ وہ عورتیں جو خود کو روایات کا علم بردار سمجھتی ہیں۔ جو بہت پر ہیز گار ہیں اور ان سے مختلف ساری عورتیں ٹھیک نہیں۔ یہی عورتیں مردوں کی ایسی تربیت و ذہن سازی کرتی ہیں کہ وہ یا تو غیر فطری موت مارے جاتے ہیں یا سلاخوں کے پیچھے پہنچ جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ثناء کے قتل کو جائز قرار دینے والوں میں اکثریت ایسی ہی عورتوں کی ہے۔
خدارا مردہ وجود پر لفظوں کی سنگ باری سے باز آجائیں۔ اس کی بجائے اپنی اولاد کی تربیت کریں، بیٹا ہو یا بیٹی انہیں ایسا مضبوط و باکردار بنائیں اور اس قدر اعتماد دیں کہ بغاوت و جرم کی گنجائش ہی نہ رہے۔
تبصرہ لکھیے