مرزا اسد اللہ خان غالب زبانِ اردو کے وہ قد آور شاعر ہیں جنھوں نے زبان , فکر اور اسلوب کو نئے زاویے عطا کیے . ان کی شاعری میں ایک طرف فکر کی گہرائی اور معانی کی پیچیدگی نظر آتی ہے , تو دوسری جانب بعض اشعار میں سادگی اور سلاست ایسی کہ قاری حیرت میں پڑ جاتا ہے . غالب کی شاعری میں مشکل پسندی اور سہل ممتنع ایک ساتھ چلتے ہیں . البتہ عام طور پر غالب ایک غزل میں ایک ہی انداز کو لے کر چلتے ہیں . اگر غزل کا آغاز مشکل پسندی سے ہو , تو غزل کے آخر تک مشکل الفاظ و تراکیب ہی آتے ہیں اور اگر مطلع آسان , سادہ اور عام فہم ہو تو مقطع تک یہی سلاست و روانی برقرار رہتی ہے . جیسے غالب کی یہ دو غزلیں پڑھیں :
کوئی امید بر نہیں آتی
اور
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
یہ دیوان غالب کی چوتھی غزل ہے . پہلی دو غزلوں کے برعکس کہ مشکل الفاظ و تراکیب اور دقیق معانی کے سبب ان کا انداز مشکل پسندی والا ہے , یہ غزل مجموعی طور پر سادہ اور رواں ہے . اس کے اکثر الفاظ و تراکیب سلیس اور عام فہم ہیں . اس کے متعدد اشعار سہل ممتنع کے قریب قریب ہیں . خاص طور پر یہ شعر تو سہل ممتنع کی عمدہ مثال ہے :
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی , دردِ بے دوا پایا
غالب نے بڑے عام فہم الفاظ اور سادہ انداز میں یہاں عشق کی حقیقت کھولی ہے . اس کے نزدیک عشق کے بغیر زندگی بے روح اور بے کیف ہے اور عشق ایسا درد ہے جس کی کوئی دوا نہیں اور ایسا مرض ہے جس کا کوئی علاج نہیں بلکہ جوں جوں اس مرض کا علاج کیا جاتا ہے , یہ مرض اور بڑھتا جاتا ہے . دوسری طرف عشق ہر درد کی دوا بھی ہے . عشق کے ہوتے آدمی دوسرے تمام غموں سے آزاد ہو جاتا ہے . ابتدا میں قاری عشق کےلیے درد و دوا کی متضاد کیفیات ایک ساتھ جمع دیکھ کر الجھن اور حیرت میں پڑ جاتا ہے مگر تھوڑے غور و خوض کے بعد جب شعر کا معنی اس پر کھلتا ہے تو اس کی حیرت مسرت میں بدل جاتی ہے اور وہ عش عش کرنے لگتا ہے .
سہل ممتنع ایسے شعر کو کہتے ہیں جو بظاہر بہت آسان لگے مگر اس جیسا شعر کہنا انتہائی دشوار ہو . سہل ممتنع کی چند علامات یہ ہیں :
الفاظ بہت سادہ اور رواں ہوتے ہیں .
معنی عام فہم ہوتا ہے .
انداز ایسا مؤثر اور دلکش , کہ شعر بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے .
گہرے معانی کا حامل ہوتا ہے , معانی کی یہ پرتیں بار بار کی قرات سے کھلتی جاتی ہیں .
انداز میں ندرت پائی جاتی ہے .
اس جیسا شعر کہنا بے حد مشکل ہوتا ہے .
ایسے اشعار با آسانی حافظہ میں محفوظ ہو جاتے ہیں .
مختصر یہ کہ سہل ممتنع سادگی و پرکاری کا مرکب ہوتا ہے .
کلامِ غالب سے سہل ممتنع کی چند مزید مثالیں :
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آسان ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا
تبصرہ لکھیے