آج جبکہ دشمن چاروں طرف سے حملہ آور ہے، آئیے قرآن کریم سے جڑتے ہیں اور اس سے رہنمائی لیتے ہیں کہ ہم کس طرح اس بحران سے کامیابی سے نکل سکتے ہیں؟ سورۃ الانفال کی آیات 45 اور 46 میں اللہ تعالیٰ نے ایک جامع پانچ نکاتی لائحہ عمل بیان فرمایا ہے، جو آج کی صورتحال میں ہمارے لیے رہنمائی کا چراغ ہے:
ثابت قدمی — "فَٱثْبُتُواْ" (جمے رہو!)
یہ حکم صرف میدانِ جنگ کے لیے نہیں، بلکہ ہر محاذ پر ڈٹ جانے کا پیغام ہے، ہمیں آج نظریاتی یلغار، جھوٹے بیانیے، فتنہ انگیز خبروں، اور معاشرتی دباؤ کے باوجود اپنے دین، اصولوں، اور قومی مفاد پر ڈٹے رہنے کی ضرورت ہے۔ مرعوب ہونے، مایوس ہونے یا نفسیاتی شکست کھانے کی بجائے حوصلے، غیرت، اور عزیمت سے آگے بڑھنا ہی ثبات ہے۔
ذکرِ الٰہی "وَٱذْكُرُواْ ٱللَّهَ كَثِيرًۭا" (اللہ کا کثرت سے ذکر کرو)
دورِ حاضر میں مادی اسباب کو سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے، لیکن قرآن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ فتح صرف اسباب سے نہیں بلکہ اللہ کے ساتھ تعلق سے آتی ہے۔ اللہ کا ذکر دل کو سکون، امید، یقین اور روحانی طاقت دیتا ہے۔ نماز، دعا، قرآن، استغفار، یہ وہ روحانی اسلحہ ہیں جو ہر مسلمان کو ہر دور میں درکار ہوتے ہیں۔
اطاعتِ قیادت و اصول "وَأَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ"
اجتماعی کامیابی، قیادت کے فیصلوں کو تسلیم کرنے سے آتی ہے۔ جنگ کے موقع پر اختلافِ رائے، انارکی، یا ضد سے صرف دشمن فائدہ اٹھاتا ہے۔ آج ہمیں اپنی قیادت کے ساتھ مکمل اعتماد اور وفاداری کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے، خواہ وہ سیاسی قیادت ہو، عسکری ہو یا مذہبی۔
اتحاد و یگانگت "وَلَا تَنَـٰزَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ"
مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری آپس کی لڑائی ہے۔ سیاسی انتشار، فرقہ واریت، مسلکی تعصب، لسانی اختلاف، یہی وہ عوامل ہیں جو ہمیں کمزور کرتے ہیں۔ اتحاد کے بغیر ہماری طاقت بکھر جاتی ہے۔ قرآن خبردار کرتا ہے کہ آپس کی چپقلش تمھاری ہوا اکھاڑ دے گی! ہمیں اختلافات کو بھلا کر اجتماعی مفاد کے لیے متحد ہونا ہوگا۔
صبر اور حکمت "وَٱصْبِرُوٓاْ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلصَّـٰبِرِينَ"
صبر صرف دکھ سہنے کا نام نہیں، بلکہ سوچے سمجھے فیصلے لینے، اشتعال سے بچنے، وقتی فائدے کے بجائے دور اندیشی سے کام لینے کا نام ہے۔ جلد بازی، عجلت، جذباتی ردعمل، اور غیر دانشمندانہ احتجاج نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ صبر ہی وہ خوبی ہے جو قوموں کو بحرانوں سے نکال کر بلندی تک لے جاتی ہے۔
یہ وقت جذباتی ردعمل یا صرف تنقید کا نہیں بلکہ قرآن کے اس پانچ نکاتی فارمولے کو فرد، خاندان، ادارہ اور قوم کی سطح پر اپنانے کا ہے۔
ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال کرنا ہے کہ کیا ہم ثابت قدم ہیں؟ کیا ہم اللہ اور قرآن سے جُڑے ہوئے ہیں؟
کیا ہم قیادت کے ساتھ کھڑے ہیں؟ کیا ہم متحد ہیں؟
کیا ہم اپنے اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے صبر اور حکمت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں؟
اگر ان سب سوالوں کا جواب "ہاں" ہے، تو آپ کے لیے خوشخبری ہے کہ اللہ کی نصرت قریب ہے۔
تبصرہ لکھیے