آج مورخہ 16۔05۔2025 سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں مفتی عبد القوی لال مسجد اسلام آباد کے دارالافتاء میں بیٹھے ہوئے ہیں اور اس دوران لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز گن اٹھائے دارالافتاء میں داخل ہوئے اور مفتی عبد القوی کو دھمکیاں دیتے ہوئے وہاں سے بھگا دیا اور برا بھلا بھی کہتے رہے۔ جس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑ گئی ہے کہ مولانا عبدالعزیز کا یہ عمل درست تھا یا نہیں؟
مولانا عبدالعزیز کے اس رویے کی کسی بھی طرح حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی، مانا کہ مفتی عبدالقوی کوئی پسندیدہ شخصیت نہیں، مفتی قوی کی توجیہات، تحقیقات، تشریحات اور نظریات سے کوئی بھی پڑھا لکھا مسلمان اتفاق نہیں کرتا اور مختلف مواقع پر مفتی قوی کی بیباکیاں، بیہودگیاں کسی بھی مسلم معاشرے کے لئے قابل قبول نہیں، اور میرے خیال سے پاکستانی مسلمان مفتی قوی کو کوئی مذہبی راہنما یا پیشوا نہیں سمجھتے۔بلکہ مفتی قوی کی پہچان ایک مسخرہ اور غیر سنجیدہ شخصیت کے طور پر کی جاتی ہے۔اس سب کے باوجود مولانا عبدالعزیز کا رویہ ایک گھر آئے مہمان کے ساتھ سراسر غیر اسلامی، غیر اخلاقی اور غیر مناسب تھا۔
اللہ رب العزت نے حضرت موسی علیہ السلام کو جب ایک ایسے شخص کے پاس دعوت دینے کے لئے بھیجا جو کہ " خدائی " کا دعوٰی کرتا تھا تو فرمایا۔
" (فرعون کے پاس جا کر) اس سے نرمی سے بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت حاصل کرے یا وہ ڈرے"( سورہ طہ آیت 44)
اسی طرح قرآن مجید کی سورہ النحل آیت 125 میں ارشاد باری تعالٰی ہے
" اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت کے ساتھ اور اچھی گفتگو کے ساتھ اور ان سے بحث کرو تو وہ بھی احسن انداز میں "
مزید سورہ آل عمران آیت 159 میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے رویے کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ پاک نے فرمایا
" اللہ کی رحمت کی بدولت آپ ان لوگوں کے ساتھ نہایت نرم دل ہیں اگر آپ ترش مزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے ارد گرد نہ ٹھہرتے( یعنی آپ سے دور دور رہتے) لہذا ان کے ساتھ درگذر کیا کرو اور ان کے لئے مغفرت کی دعا کیا کرو"
اس جیسی اور بھی بہت سی آیات قرآنی میں نرمی، حسن سلوک اور اچھے انداز سے اصلاح کی دعوت دینے پر زور دیا گیا۔
خود آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برائی کا جواب اچھائی سے دیا ، دشمنان دین کے ساتھ حسن سلوک سے کام لیا اور حکمت وبصیرت سے لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑا۔
مولانا عبدالعزیز ایک قد آور شخصیت ہیں، ایک داعی ہیں، اشاعت دین کے کام میں مصروف عمل ہیں، مبلغ اور واعظ ہیں ان کا یہ رویہ وہ بھی گھر آئے مہمان کے ساتھ ہاتھ میں بندوق پکڑے اس کو ذلیل کر کے نکالنا، مہمان کو دھمکیاں دینا، اور اس پر مستزاد یہ کہ اس سارے عمل کی دانستہ طور پر ویڈیو بھی بنانا قطعا قابل قبول نہیں۔
اگر مولانا عبدالعزیز کو مفتی قوی سے کوئی شکایت تھیں اور یقینا ہونگی تو اس کا بہتر طریقہ یہی تھا کہ اس کو عزت سے بٹھاتے، چائے پلاتے اور پھر اس کو سمجھاتے کہ آپ اپنی اصلاح کریں اور اپنے نام کے ساتھ " مفتی " کا سابقہ لگا کر لوگوں کو دین اسلام کی غلط تشریحات نہ بتائیں اور اپنا قبلہ درست کریں
ہو سکتا تھا کہ ان کے بہتر رویے سے مفتی قوی میں کوئی تبدیلی آجاتی۔
مگر نا جانے مولانا عبدالعزیز کو کیا سوجھی کہ وہ مہمان پر مسلح ہو کر چڑھ دوڑے اور ویڈیو بنوا کر ایک مسلمان کی تذلیل کر ڈالی ، یہی وجہ ہے کہ ملک کے اکثر جید علماء مولانا عبدالعزیز صاحب سے کنارہ کشی اختیار کر چکے ہیں اور ان کے اس سخت رویے نے انکی نیک نامی میں اضافہ نہیں بلکہ کمی کی ہے، بعض چسکے لینے والے یار لوگ اسکو غیرت ایمانی سے تعبیر کر رہے ہیں مگر غیرت ایمانی دکھانے کا بھی کوئی وقت ہوتا ہے کوئی موقع محل ہوتا ہے۔ گھر میں تو کافر بھی چل کر آجائے تو اس کے ساتھ اس سلوک کی اجازت نہیں دی جا سکتی چہ جائیکہ ایک مسلمان کے ساتھ یہ ہتک آمیز رویہ اختیار کیا جائے۔
تبصرہ لکھیے