ہوم << پاکستان آرمی: دفاع وطن کا ناقابل تسخیر قلعہ- مریم صدیقی

پاکستان آرمی: دفاع وطن کا ناقابل تسخیر قلعہ- مریم صدیقی

جب کوئی قوم اپنے وجود کی بنیاد نظریے پر رکھتی ہے تو اس نظریے کی حفاظت ایک مسلسل جدوجہد بن جاتی ہے۔ پاکستان، جو لاکھوں قربانیوں، ہجرتوں، آنسوؤں، اور خون کے دریا عبور کرنے کے بعد معرضِ وجود میں آیا، اس کے دفاع کی ذمہ داری ایک ایسے ادارے کو سونپی گئی جو صرف سرحدوں کی حفاظت کا نام نہیں بلکہ غیرت، قربانی، استقامت اور ایمان کی علامت ہے۔ پاکستان آرمی ایک ایسا قلعہ ہے جو نہ صرف دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھتا ہے بلکہ قوم کے اندرونی استحکام، اتحاد، اور سلامتی کو بھی یقینی بناتا ہے۔ یہ قلعہ ٹینکوں، میزائلوں، اور جنگی جہازوں سے زیادہ اس جذبے سے تعمیر ہوا ہے جو ہر سپاہی کی آنکھوں میں چمکتا ہے، جو ہر وردی کے پیچھے ایک شہادت کا عزم لیے ہوئے ہوتا ہے، اور جو ہر پاکستانی کے دل میں آرمی کے لیے محبت اور فخر کی صورت میں بستا ہے۔

1947 میں جب پاکستان وجود میں آیا تو وسائل نہایت محدود تھے۔ نہ مکمل عسکری ڈھانچہ تھا، نہ تربیت یافتہ افواج، اور نہ ہی جنگی ساز و سامان لیکن قوم کے اس وقت کے قائدین اور مجاہدین کو ایک بات کا یقین تھا کہ اگر جذبہ زندہ ہو تو دشمن کا سامنا بھی خالی ہاتھ کیا جا سکتا ہے۔ یہی جذبہ پاکستان آرمی کا اصل سرمایہ بنا۔ آغاز سے ہی جب بھارت نے کشمیر پر قبضہ کیا اور پہلا حملہ کیا، تو پاکستانی فوج نے اپنی جرات، فہم اور جذبے سے دشمن کو پیچھے دھکیل دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ، پاکستان آرمی نے اپنے آپ کو جدید تربیت، ٹیکنالوجی اور حربی مہارتوں سے لیس کیا مگر اس کا اصل جوہر وہی رہا، حبِ وطن اور قربانی کا بے مثال جذبہ۔ 1965 کی جنگ میں پوری قوم نے دیکھا کہ جب دشمن نے لاہور پر حملہ کیا تو ایک میجر عزیز بھٹی شہید نے کئی دنوں تک دشمن کی گولہ باری کا سامنا کیا اور جان کا نذرانہ دے کر وطن کی مٹی کو سرخرو کیا۔ یہ جنگ پاکستانی تاریخ میں ایک مثال بن گئی کہ کس طرح ایک قوم، اپنے سپاہیوں کے ساتھ مل کر دشمن کی کئی گنا بڑی فوج کو پیچھے دھکیل سکتی ہے۔ 1971 کی جنگ، چاہے سیاسی طور پر کتنی ہی پیچیدہ کیوں نہ رہی ہو مگر پاکستانی فوج کے جوانوں نے وہاں بھی اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ہزاروں قربانیاں دیں۔

پھر جب 1999 میں کارگل کی پہاڑیوں پر دشمن نے چپکے سے قبضہ جمانے کی کوشش کی تو پاکستانی فوج نے اپنے جذبے سے یہ ثابت کر دیا کہ چاہے کتنی ہی سخت زمین ہو، چاہے آکسیجن کی کمی ہو مگر دشمن کا قدم نہیں جمنے دیا جائے گا۔ کیپٹن کرنل شیر خان، جنہیں بعد از شہادت بھارت نے بھی خراجِ تحسین پیش کیا، اس جذبے کی اعلیٰ مثال بنے۔ یہ فوج صرف میدانِ جنگ کی نہیں بلکہ ہر اُس وقت کی محافظ ہے جب قوم کسی آزمائش میں ہو۔ 2005 کا زلزلہ ہو یا 2010 کے تباہ کن سیلاب، پاکستان آرمی نے اپنے وسائل، مہارت اور انسانیت سے لبریز جذبے کے ساتھ متاثرہ علاقوں میں امدادی کام کیے، متاثرین کو ریسکیو کیا، اور کئی ایسی بستیاں بسائیں جہاں حکومتیں بھی دیر سے پہنچتیں۔

لیکن ایک اور جنگ، جو خاموش تھی اور دشمن کی چالاکیوں سے بھرپور تھی، وہ تھی دہشت گردی کے خلاف جنگ۔ 2001 کے بعد پاکستان کو جس جہادی، فتنہ پرور اور خارجی نظریات نے جکڑنا چاہا، اس کے خلاف سب سے بڑی ڈھال پاکستان آرمی بنی۔ سوات آپریشن، شمالی وزیرستان کا ضربِ عضب، خیبر آپریشن، اور پھر ردالفساد۔ یہ تمام مرحلے پاکستان آرمی کی بصیرت، حکمتِ عملی اور قربانیوں سے بھرپور تھے۔ ہزاروں جوانوں اور افسروں نے اپنی جانیں دیں تاکہ مساجد، بازار، اسکول، یونیورسٹیز اور چوک محفوظ رہیں۔ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں جب دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن آپریشن ہوا تو دنیا نے مانا کہ پاکستان واحد ملک ہے جس نے اتنی بڑی جنگ کو محض اپنی افواج کی ہمت سے جیتا۔

اس دوران پاکستان آرمی نے اپنی دفاعی صلاحیتوں کو جدید بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے۔ الخالد ٹینک، تھنڈر جیٹ، نصر میزائل اور جدید ڈرونز جیسی ٹیکنالوجی میں خود انحصاری کا سفر طے کیا۔ ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا، کامرہ اور دیگر دفاعی ادارے اس خود مختاری کی علامت ہیں۔ پاکستان آرمی نے نہ صرف روایتی جنگی صلاحیتوں میں بہتری لائی بلکہ سائبر وار اور ففتھ جنریشن وار جیسی جدید جنگی حکمتِ عملی میں بھی مہارت حاصل کی۔ دشمن کے پروپیگنڈے، جھوٹی اطلاعات، نظریاتی حملوں، اور سوشل میڈیا کے ذریعے ذہنوں کو مسخ کرنے کی کوششوں کو آرمی نے مؤثر حکمتِ عملی سے شکست دی۔ آئی ایس پی آر نے جدید میڈیا ٹولز کا استعمال کر کے نہ صرف فوج کے مورال کو بلند رکھا بلکہ عوام کو دشمن کے پراپیگنڈے سے بچانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ”اے راہِ حق کے شہیدو“ سے لے کر ”پاکستان ہمیشہ زندہ باد“، جیسے ترانے نہ صرف جذبہ پیدا کرتے ہیں بلکہ پاکستان کے نوجوان ذہنوں کو بیدار کرتے ہیں کہ کون دوست ہے اور کون دشمن۔

دنیا میں امن کے قیام کے لیے بھی پاکستانی فوج کی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اقوامِ متحدہ کے امن مشنز میں سب سے زیادہ حصہ لینے والی افواج میں پاکستان سرفہرست ہے۔ افریقہ، کوسوو، بوسنیا اور دیگر علاقوں میں پاکستانی سپاہی نیلے ہیلمٹ پہن کر مظلوم انسانیت کی حفاظت کرتے ہیں، جس سے پاکستان کی نیک نامی عالمی سطح پر بڑھتی ہے۔ پاکستان آرمی کی اصل طاقت صرف اس کے ہتھیار نہیں بلکہ وہ مائیں ہیں جو اپنے بیٹے وطن پر قربان کرنے کو فخر سمجھتی ہیں، وہ باپ ہیں جو بیٹے کے شہادت کے بعد سکون سے کہتے ہیں کہ میرا بیٹا وطن پر قربان ہو کر امر ہو گیا اور وہ بہنیں ہیں جو بھائی کے تابوت کو پھولوں سے سجاتی ہیں۔

یہ فوج محض حملوں سے نہیں لڑتی، بلکہ نوجوانوں کی تربیت بھی کرتی ہے۔ آرمی پبلک اسکولز، فوجی فاؤنڈیشن یونیورسٹیز، میڈیکل کور، انجینئرنگ کور اور دیگر تعلیمی و فلاحی ادارے پاکستانی معاشرے میں علم، ترقی اور خدمت کا جذبہ بھی پیدا کر رہے ہیں۔ خواتین کی شمولیت سے فوج مزید مضبوط ہوئی ہے اور لیڈی کیڈٹس اب میڈیکل، انجینئرنگ، ایوی ایشن، اور عسکری قیادت کے میدانوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔ ہر برس، پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے جب نئی پاس آؤٹ ہونے والی کور کے نوجوان حلف اٹھاتے ہیں، تو صرف وردی ہی نہیں، ایک نظریہ ان کے جسم و جاں میں شامل ہو جاتا ہے۔ ان کی آنکھوں میں ملک کی سالمیت، نظریاتی شناخت اور پرچم کی حرمت کے لیے جان دینے کا عزم ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ دشمن کی بندوق سے زیادہ خطرناک پروپیگنڈا ہے، اور اس کا توڑ صرف بصیرت، تربیت، اور قربانی ہے۔

پاکستان آرمی، اپنے شہداء، غازیوں، جنرلز، جوانوں اور سویلین معاونین کی کاوشوں سے ایک ایسی دیوار بن چکی ہے جسے دشمن آج بھی پھلانگنے سے قاصر ہے۔ یہ قلعہ صرف اینٹ اور پتھر سے نہیں، بلکہ خون، وفا، ایثار، محبت اور حوصلے سے بنا ہے۔ اس کا ہر گوشہ ایک شہید کی آخری ہنسی کی گواہی دیتا ہے، ہر دروازہ ایک ماں کی دعا سے مضبوط ہوا ہے اور ہر در پر ”لبیک“ کی صدا گونجتی ہے۔ پاکستان آرمی صرف آج کی محافظ نہیں، یہ آنے والی نسلوں کی سلامتی کی ضامن ہے۔ اس قلعے کے برجوں پر جو پرچم لہرا رہا ہے وہ صرف سبز و سفید رنگ کا کپڑا نہیں، بلکہ ایک خواب، ایک عقیدہ، ایک تاریخ اور ایک عہد ہے۔ اور جب تک یہ پرچم لہرائے گا، تب تک دنیا جان لے کہ پاکستان آرمی دفاعِ وطن کا وہ ناقابلِ تسخیر قلعہ ہے جس پر کسی دشمن کی نظر اٹھانے کی جرات نہیں۔