اپنے ماں باپ کے رکھے ہوئے نک نیم "چندا" سے اپنے گھرانے میں روشنیاں بکھیرنے کے بعد جب اسکول سے کالج کی زندگی میں قدم رکھا تو وہاں اپنی ایک شرارت کی وجہ سے "چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر" کے طور پر مشہور ہوا۔اس زمانے میں ملک میں بھی ذوالفقار علی بھٹو کا بطور "سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر" کے طور پر راج تھا اس لئے کالج کے دوستوں نے بھی میرے اس خودساختہ عہدے کو قبول کرلیا۔ میری ہر وقت ہنسنے ہنسانے کی عادت کو دیکھتے ہوئی پریمئیر کالج کے شعبہ اردو کے سربراہ پروفیسر لطیف انور نے مجھے "ہیپی پرنس" کا خطاب دیا۔
1975 میں مارننگ نیوز اخبار میں سب ایڈیٹر کے عہدے پر پہلی ملازمت ملنے کے بعد "روفی یانگ" کے نام سے مشہور ہو گیا، 1993 میں جنگ اخبار میں سب ایڈیٹر کے طور پر تقرری کے بعد فیچر لکھنے کا آغاز کیا، ویسے تو قلم و قرطاس سے رشتہ 1983 سے ہی استوار ہوگیا تھا لیکن 1993 کے بعد میری شناخت میرے اصل نام سے ہونے لگی۔ جب میں نے مزاح نگاری کا آغاز کیا تو میرے طنزیہ و مزاحیہ کالم بھی روزنامہ جنگ کے ادارتی صفحہ پر شائع ہونے لگے۔
کچھ عرصے بعد میری کالم نگاری پر پابندی لگ گئی لیکن فیچر شائع ہوتے دہے۔ 2020 میں 35 طنزیہ و مزاحیہ مضامین پر مشتمل میری کتاب شائع ہوئی اور میرے محسن، سابق صوبائی وزیر و ایڈیشنل سکریٹری داخلہ ڈاکٹر شفقت عباسی نے اپنا دست شفقت میرے سر پر دراز کیا اور میری کتاب "نام میں کیا رکھا ہے،" کی تقریب رونمائی باوقار انداز میں آرٹس کونسل کے جون ایلیا لان میں منعقد ہوئی تو میرے عباسی برادری کے دوست مجھے میرے نام کی بجائے میری کتاب کے نام "نام میں کیا رکھا ہے" کے حوالے سے جاننے لگے جو میرے لئے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔
جو پزیرائی میری کتاب کو حاصل ہوئی اور میری برادری، میرے دوستوں ملک و بیرون ملک میں اسے جتنی مقبولیت حاصل ہوئی وہ میرے لئے "پرائیڈ آف پرفارمنس" کا عوامی ایوارڈ ہے۔ اب جب کہ میں جنگ چھوڑ چکا ہوں اور جنگ سے میری عدالتی جنگ چل رہی ہے، میں اس وقت اسلام آباد کے اخبار، شگاگو امریکا کے دو اخبارات اور البرٹا کینیڈا کے اخبار کینیڈین ٹائمز میں خدمات انجام دے رہا ہوں، ابھی بھی "نام میں کیا رکھا ہے" میری شناخت بنی ہوئی ہے
تبصرہ لکھیے