یہ غزل غالب کی مشکل پسندی کی ایک مثال کہی جا سکتی ہے ۔ چنانچہ اس کی تفہیم کےلیے گہرے غور و خوض کی ضرورت پڑتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شارحین نے اس کے اشعار کے کئی کئی مطالب بیان کیے ہیں اور مختلف پہلووں سے ان کی تشریح کی ہے ۔ مشکل پسندی کا یہ انداز غالب کی علمی و فکری عظمت کا اظہار بھی ہے ۔ یوں یہ مشکل پسندی ان کی خامی نہیں بلکہ خوبی بن جاتی ہے ٬ کہ اس کی گہرائی میں قاری کےلیے معانی کے جہاں پوشیدہ ہیں ۔
صنائع و بدائع کا مؤثر و موزوں استعمال کسی بھی شاعر کی فنی مہارت کا ثبوت ہوتا ہے ۔ غالب نے پہلے شعر میں تضاد معنوی کا خوب صورت استعمال کیا ہے ۔ صحرا اور تنگیِ چشمِ حسود تضاد معنوی کی مثال ہے۔ صحرا وسعت کی علامت ہے جب کہ حاسد کی آنکھ تنگی کی نشانی ہے ٬ کہ اس میں سوائے اپنی ذات کے کوئی اور نہیں سماتا ۔ یہاں ایک نکتہ یہ ہے کہ غالب نے لفظ حَسود ( بفتح الحاء ) استعمال کیا ہے ٬ جو کہ عربی میں مبالغہ کا صیغہ ہے ٬ جس کا معنی ہے بہت زیادہ حسد کرنے والا اور جو جس قدر زیادہ حاسد ہوگا اس کی نظر اسی قدر تنگ ہوگی ۔ یوں ایک جانب صحرا کی پایاں وسعت ہے اور دوسری جانب انتہائی درجہ حسد کرنے والے کی آنکھ کی تنگی ۔
دنیا کو مخاطب کریں اور پھر درج ذیل شعر پڑھیں ٬ دنیا کی ساری حقیقت ہمارے سامنے پھر جائے گی :
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا
پانچواں شعر ایک اہم حقیقت سے پردہ اٹھاتا ہے کہ موت ہماری تمام خامیوں پر پردہ ڈال دیتی ہے اور ہر کوئی ہماری تعریف میں رطب اللسان ہو جاتا ہے اور جیتے جی اس مقصد کا حصول نا ممکن ہے ۔
غالب فرہاد کے عشق سے متاثر نظر نہیں آتا ٬ جب کہ اس نے پہلے شعر میں مجنون کے عشق کی تعریف کی ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ فرہاد کو مرنے کےلیے تیشے کی ضرورت پڑی ٬ اس کےلیے تو شیریں کی موت کی خبر ہی موت بن جانی چاہیے تھی ٬ تیشے سے تو کوئی بھی اپنی جان لے سکتا ہے ٬ اس میں فرہاد کوہکن کی کیا خصوصیت ہے ۔ گویا فرہاد رسوم و قیود کا پابند کیوں بنا
غالب نے اس چھے اشعار کی غزل میں چار بار دوہری تراکیب اضافی کا استعمال کیا ہے ٬ تنگیِ چشمِ حسود ٬ مکتبِ غمِ دل ٬ داغِ عیوبِ برہنگی اور سرگشتہِ خمارِ رسوم و قیود ۔ ۔ ۔ یہ غالب کی فنی مہارت کا کھلا ثبوت ہے ۔
ندرت غالب کے فن کی اہم خصوصیت ہے ۔ الفاظ میں ندرت ٬ تراکیب میں ندرت ٬ معانی میں ندرت اور انداز میں ندرت ۔ غالب ہر جگہ اپنی انفرادیت کا لوہا منواتا ہے اور یہی اس کی بڑی خوبی ہے ٬ جو اسے دیگر شعراء سے ممتاز کرتی ہے ۔
تیسرا ٬ پانچواں اور چھٹا شعر بالترتیب میرے پسندیدہ اشعار ہیں اور تراکیب علی الترتیب یہ ٬ خمارِ رسومِ و قیود اور ننگِ وجود پھر تنگیِ چشمِ حسود
ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ یہ غزل قیس کے عشق سے شروع ہو کر فرہاد کے عشق پر ختم ہو جاتی ہے ۔
اس کے ذیل میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ آخری شعر غزل کا بھی اختتام ہے اور اس میں کوہکن کی زندگی کے اختتام کا بھی ذکر ہے ۔ یہ مضمون مقطع میں ہی مناسب تھا ۔
اور آخری بات غزل میں تین لفظ ( حسود , رسوم , قیود ) استعمال ہوئے ہیں - یہ تینوں الفاظ تلفظ اور قواعد کے اعتبار سے بظاہر ایک سے معلوم ہوتے ہیں . مگر دونوں لحاظ سے ان میں فرق ہے -
حَسود بفتح الحاء ہے اور یہ مبالغہ کا صیغہ ہے , ( جیسے ظَلوم اور جَہول وغیرہ ) اس کا معنی ہے : بہت زیادہ حسد کرنے والا شخص , جب کہ قُیود اور رُسوم بضم القاف اور بضم الراء ہیں اور یہ جمع کے الفاظ ہیں - ( جیسے عُلوم اور قُلوب وغیرہ )
خلاصہ یہ کہ فَعول عربی میں مبالغہ کا وزن اور فُعول جمع کا وزن ہے -
تبصرہ لکھیے