یورپی اور اسلامی قوانین میں شادی اور جنسی رضامندی کی عمر کے حوالے سے بنیادی نوعیت کا فرق پایا جاتا ہے۔ یورپ میں "شادی کی عمر" اور "جنسی رضامندی" دو علیحدہ قانونی تصورات ہیں۔ بیشتر یورپی ممالک میں شادی کی کم از کم قانونی عمر 18 سال مقرر ہے، جیسا کہ اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن (CRC) میں بھی تجویز کیا گیا ہے، البتہ بعض ممالک میں والدین یا عدالت کی اجازت سے یہ عمر 16 سال تک لائی جا سکتی ہے۔ اس کے برخلاف جنسی رضامندی کی عمر کچھ ممالک میں 14 یا 15 سال بھی مقرر ہے، جیسے کہ جرمنی، ہنگری، آسٹریا اور پرتگال میں 14 سال، جبکہ فرانس، چیک ریپبلک اور پولینڈ میں 15 سال اور برطانیہ، نیدرلینڈز و ناروے میں 16 سال ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یورپی معاشروں میں بلوغت کی عمر کے بعد نوجوانوں کو جسمانی و جذباتی آزادی دینے کا تصور غالب ہے، اور ہم عمر افراد کے درمیان شادی سے قبل جنسی تعلق کو جرم نہیں سمجھا جاتا۔ نتیجتاً وہاں جنسی خودمختاری کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔
اس کے برعکس اسلامی قوانین میں جنسی تعلق صرف شادی کے بعد جائز ہے۔ نکاح کے بغیر کسی بھی قسم کا جنسی عمل حرام، اخلاقی و سماجی طور پر مذموم اور قابلِ سزا جرم (زنا) ہے، خواہ وہ باہمی رضامندی سے ہی کیوں نہ ہو۔ لہٰذا اسلامی قانون میں "جنسی رضامندی کی عمر" کا کوئی علیحدہ تصور موجود نہیں۔ شریعت میں شادی کے لیے عمر کا تعین بلوغت، ذہنی و جسمانی آمادگی، اور سرپرست (ولی) کی اجازت سے مشروط ہوتا ہے، اور اس کے لیے کسی مقررہ عددی عمر کی شرط نہیں رکھی گئی۔ اسلامی تعلیمات میں نکاح کو نہ صرف جنسی تعلقات کے لیے بلکہ معاشرتی استحکام، نسل کی بقا، اور اخلاقی نظم و ضبط کے لیے بھی ناگزیر قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ نوجوانوں میں جو نکاح کی استطاعت رکھتا ہو، وہ نکاح کرے کیونکہ یہ نظر کو جھکانے اور شرمگاہ کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔
عصرِ حاضر میں کئی مسلم ممالک نے یورپی دباؤ یا اقوام متحدہ کی تجاویز کو مدنظر رکھتے ہوئے شادی کی کم از کم عمر قانونی طور پر مقرر کر دی ہے، جو کہ شریعت اسلامی کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔ مراکش، اردن، انڈونیشیا، مصر اور پاکستان جیسے ممالک اس ضمن میں نمایاں مثالیں ہیں۔ پاکستان میں پہلے شادی کی عمر 1929 کے چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کے تحت طے کی گئی تھی جس میں لڑکی کی عمر 16 اور لڑکے کی 18 سال مقرر کی گئی تھی، تاہم حالیہ برسوں میں سندھ اور اسلام آباد میں ترامیم کے ذریعے دونوں جنسوں کی شادی کی عمر 18 سال مقرر کر دی گئی، اور اب یہ قانون وفاقی سطح پر پورے ملک میں نافذ کر دیا گیا ہے۔
یورپی نظام میں جنسی رضامندی اور شادی کی عمر کے درمیان موجود فرق نے نوجوانوں کو اگرچہ جنسی آزادی دی ہے، تاہم اس سے خاندانی نظام کی اہمیت کم ہو گئی ہے۔ نوجوان جذباتی اور جسمانی استحصال کا شکار ہو رہے ہیں، اور معاشرتی بے راہ روی میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب اسلامی نظام میں چونکہ جنسی تعلقات صرف نکاح کے بعد جائز ہیں، اس لیے نہ صرف اخلاقی تحفظ حاصل ہوتا ہے بلکہ خاندان کی بنیادیں بھی مضبوط ہوتی ہیں۔
پاکستان میں حالیہ قانون سازی اسلامی اصولوں اور معاشرتی حقیقتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے مغربی اندازِ فکر کی تقلید میں کی گئی ہے۔ بلوغت کو پہنچنے کے باوجود اگر کسی نوجوان کو نکاح کی اجازت نہ دی جائے، تو وہ بآسانی گناہ کی طرف مائل ہو سکتا ہے، کیونکہ قانونی طور پر شادی ممکن نہیں ہوتی۔ اس طرح نوجوان لڑکے اور لڑکیاں پہلے چھپ کر اور آہستہ آہستہ کھلے عام آپس میں تعلقات قائم کرنے پر مجبور ہوں گے، اور اس گناہ کے فروغ کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوگی، جو اسلامی تعلیمات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
تبصرہ لکھیے