ہوم << تبصرہ کتاب: خو دفریبی کے شکار امریکی حکمران- میر افسر امان

تبصرہ کتاب: خو دفریبی کے شکار امریکی حکمران- میر افسر امان

میری لائبریری میں کتابdaydream belivers کا اضافہ ہوا۔ اس کتاب کے امریکی مصنف فریڈ کیپلن ہیں۔ اُردو ترجمہ ظہور احمد انجم نے کیا۔ فیس بک پر اس کتاب کا اشتہار دیکھا اور مطالعہ کے لیے منگوا لیا۔ یہ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب فوری فتح کاسراب،دوسرا باب اخلاقی جرأت پر چھائی دھند،تیسرا باب چاندی کی گولیوں کے تعاقب میں، چوتھا باب نئی دنیا کی دوبارا تعمیر کا آغاز، پانچواں باب سہانے سپنے، جو ڈراؤنے خوابوں میں بدل گئے، آخری اور چھٹا باب بیدار ہونے پر حقیقت کا سامنا۔

اس کتاب کے ابتدایہ میں، ٹی۔ ای۔ لارنس کی کتاب”دانائی کے سات ستون کا“ یہ سبق بھی لکھا ہوا ہے۔
”خواب تو سبھی دیکھتے ہیں،لیکن ایک جیسے نہیں۔وہ جو رات کو خواب دیکھتے ہیں،یعنی ایسی حالت میں جب ان کاذہن ان کے ارادے سے مختصر چھٹی منا رہا ہوتا ہے،صبح جاگنے پر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ حقیقت نہ تھی، لیکن دن کے وقت خواب دیکھنے والے خطرناک لوگ ہوتے ہیں،کیونکہ وہ جاگتے میں ایسا کچھ کرنے کی کوشش بھی کر سکتے ہیں کہ جو وہ خواب میں دیکھ رہے ہیں“
مصنف نے کمال دیانت داری سے امریکی حکمرانوں کی فاش غلطیوں کو بیان کیاہے۔ ایسی غلطیاں جو حکمران اکثر طاقت کے نشے میں کر جاتے ہیں۔

مصنف لکھا ہے کہ ”پچھلے چند برسوں میں، امریکا سے امن یا جنگ کے دوران، سرزد ہونے والی تقریباً سبھی فاش غلطیاں ایک ہی فکری مغالطے کی پیداوار تھیں۔ یعنی یہ کہ گیارا ستمبر کے بعد سے دنیا بدل چکی ہے، حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہوا“ راقم کے نذدیک کسی نے یہ غلط تجربہ کیاتھا۔ کسی ایک کی شرارت یا دہشت گردی ہی اگر مان بھی لی جائے،لیکن کسی پوری مسلم قوم کو دہشت گرد، انتہا پسند اور اس کے مذہب پر ہی حملے کیے جائیں، بلکہ پوری میں اپنی اتحادیوں کو اس کام پر لگا دیا جائے۔گیارا ستمبر کا واقعہ جس کو خود امریکہ کے دانشورں نے فالس فلیگ آپریشن، یعنی خودکردہ کہا تھا۔ ثبوت یہ دیا گیا کہ اُس دن چار ہزار یہودی ٹون ٹاور جو ملازمت کرتے تھے کیوں غیر حاضر رہے۔ کچھ نے یہ بھی کہا کہ بلڈنگ کی بنیاد میں خودبارود رکھا تھا۔ جیسے ہی طیارہ ٹکرایا بلڈنگ سیدھا نیچے بیٹھ گئی۔اِدھر اُدھر کو نہیں گری۔وائٹ ہاؤس میں طیارہ اندر کیسے گھس گیا۔اس واقعہ سے مسلم دنیا میں امریکی کی مخالفت بڑھی۔ امریکی کو کافی نقصان ہوا۔ اسلام کے حق میں دنیا نے رائے بنائی۔ لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے۔

مصنف لکھتا ہے کہ”سوویت یونین کے ٹوٹنے سے سرد جنگ کاخاتمہ ہوا۔ لیکن ہمارے لیڈر اس تبدیلی کو صحیح سمجھ نہیں پائے۔گیاراستمبر کے سانحے سے پہنچنے والے دکھ کو ہی تبدیلی کامنبع گردانتے رہے۔بش اور اس کے لوگوں نے سمجھ لیا کہ سرد جنگ ہم جیت چکے،اب ہم دنیا کی واحد سپر پاور ہیں۔ لہیٰذا اب ہم جو چائیں کر سکتے ہیں۔ ایک حکم سے کسی کو ا طاعت پر مجبور کرنا، سرکش حکومتوں کا تختہ الٹنا،معاہدوں اور اتحادوں کی صرف اسی صورت پروا کرنا جب وہ ہمیں مفید لگیں۔ اور اپنے لیے مفید ثابت نہ ہورہے ہوں تو ان کی پاسداری سے انکار کر دیا“۔راقم! اگر دیکھا جائے تو مسلمانوں نے سوویت یونین کا تختہ کیا تھا۔ افغان اور مسلم دنیا سے آئے مجاہدوں نے روس سے لڑائی شروع کی۔ امریکہ کی مدد اس جنگ میں دو سال بعد پہنچی۔ یہ درست ہے امریکہ کے اسٹنگر میزائیل نے کام دکھایا۔ مگر لڑنے والے تو مسلمان تھے۔ اس طرح جن مجاہدین کو امریکی میں صدر ریگن وائٹ ہاؤس میں بیٹھا کر شاباش دیتا تھا۔ جن کی وجہ سے امریکہ کا سپر پاور بنا۔ مگر کام نکل جانے کے بعد انہیں ہی مجاہدین کو دہشت گرد قرار دے دیا۔

مصنف لکھتا ہے کہ”خوف کے باوجود سرد جنگ نے ایک بین الاقوامی نظم و ضبط اور تحفظ کے ایک نظام کو جنم دیا تھا۔ دنیا کے کئی ممالک کسی نہ کسی کیمپ میں شریک ہوتے تھے۔ اس سے انہیں تحفظ ملتا تھا۔ سویت یونین کے ٹوٹنے سے جو ممالک امریکی کی چھتری میں تھے جنہیں تحفظ ملتا تھا۔ اس تبدیلی سے ختم ہو گیا۔ اس کا لازمی نتیجہ نکلا کہ اب امریکہ کا اثر ورسوخ اور طاقت میں بھی کمی آ گئی۔کرہء عرض کی اس بدلی ہوئی سیاسی فضا میں اپنا اثر ورسوخ بحال رکھنے کے لیے کسی بھی امریکی صدر کے سامنے دو راستے تھے۔ اوّل وہ ایک عظیم الشان سلطنت کے رعب و جلال کی دھاک دنیا پر بٹھا دے۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ اتحادیوں کو مضبوط کیا جائے۔ نئے اتحادبنائے جائیں۔ عالمی برادری سے حمایت حاصل کی جائے۔ طاقت کی موجودہ پیچیدگی کی پوری سمجھ ہماری اعلیٰ قیادت کو نہیں تھی۔ جارج ڈبلیو بش اور اس کے ساتھیوں کا خیال تھا کہ ہم ناقابل تسخیر،بلکہ لازوال طاقت بن چکے ہیں۔ بش کے بیٹے کے گرد بھی ایسے خیال کے لوگ جمع ہو گئے۔جبکہ امریکہ کو اب نئی طرزکے دشمن کا مقابلہ تھا۔ لہیٰذا امریکی صدر کو ایک نئی جنگی حکمت عملی تریب دیناتھی۔

کیونکہ دبا کے
۲
رکھنے والے پرانے حربے ناکام ہو چکے تھے۔گیارا ستمبر کو نہیں روک سکے تھے۔ اب اپنی فتح نامکمل قرار دے دیا گیا۔ جب تک مفتوعہ معاشرے کو بھی جمہوری نہ بنا دیا جائے۔ یوں مہذب دنیا کی دیرینہ خواہش کوپورا کیا جائے کہ پوری دنیا کا انداز حکمرانی جمہوری ہو جائے۔ یہ بھی خام خیال ثابت ہوئی۔نئی حکمت عملی بعض متاثر کرنے والی باتیں بھی تھیں۔ لیکن اسکے چیمپئین بڑے عہدوں پر پہنچتے ہی نئی پالیسیوں کی ضرورت اُجاگر کرنے والے اپنی تیار کردہ پالیسیوں کو محض مخصوص مقاصد حاصل کرنے کے حربے کی بجائے، انہیں امرت دھارا منوانے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے ان خیالات کو دنیا کو بدل کر رکھ دینے والی قوت پیدا کرنے کا سبب گرانتے رہے ہیں۔ یہ نظریات پہلے ایک بصیرت میں بدلنے پر خواب بن کر رک گئے۔ گیارا ستمبر کے بعد انہوں نے اپنے خوابوں کو حقیقی دنیا کی شکل میں تبدیل کرنے کے لیے ا س طرح استعمال کرناشروع کیا اور جاگتے میں ان کے مطابق عمل کرنا شروع کیا اور پھر انہیں ایک ڈراوؤنے خواب سپنے میں تبدیل ہوئے ہوئے دیکھا“
مصنف نے اپنی تحریر میں یہ بتاتے ہیں کہ امریکی حکمرانوں نے سپر پاور بننے کے بعد دنیا میں آزادجمہوری نظام کی کوشش کی۔ مگر اسے بھی اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔عرب دنیاجہاں سے پیسے ملتے ہیں۔ اس لیے وہاں جمہورت کی بات نہیں کی۔ آج بھی عرب دنیا میں بادشاہتیں قائم ہیں۔ یہ ملک امریکہ کے اتحادی ہیں۔ ان ملکوں میں امریکی فوجی اڈے ہیں۔ جن ملکوں میں جمہوری الیکشن سے تبدیلی آئی وہاں فوج سے اقتدار پر قبضے کروا دیا۔ جیسے مصر اور الجزائر میں کیا۔

قارہین! یہ کتا ب پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے۔کہ امریکہ دنیا میں من مانیاں کر رہا ہے۔ یہ کسی معاہدے کی فکر کرتا ہے، نہ ہی اس کے ہاں اخلاقی قدریں ہیں۔ غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کر رہاہے۔ عالمی عدالت انصاف نے نیتن کو جنگ مجرم کرار دے کر اس کی گرفتاری کا حکم جاری کیا ہے۔ امریکا سمیت مغربی دنیا میں عوام اس نسل کشی کے خلاف لاکھوں کے مظاہرے کر رہے ہیں۔ امریکی اسرائیل کو جدید اسلحے دے مدد کر رہاہے۔قدرت کا ایک اپنا نظام ہے۔ ظلم جب حد سے بڑھ جاتاہے۔ تو اللہ کا کوڑا چل پڑتاہے۔ بس اب دنیا امریکہ سے بدظن ہو گئی ہے۔ اس سے انصاف کی توقع نہیں۔دنیا کو اس وقت اللہ کی طرف سے کوڑا برسنے کا انتظار ہے۔