ہوم << بیانیے کی جیت - آصف امین

بیانیے کی جیت - آصف امین

کہتے ہیں کہ جنگیں صرف میدانوں میں نہیں لڑی جاتیں، بعض اوقات الفاظ کی گولہ باری، قلم کی دھار، اور لہجے کی گھن گرج بندوقوں سے بھی زیادہ کاری ضرب لگاتی ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جو جسموں کے بجائے اذہان کو تسخیر کرتی ہے، جو بارود سے نہیں، بیانیے سے لڑی جاتی ہے۔ اس کی سنگلاخ مورچیاں اخبار کی سرخیوں، سوشل میڈیا کی وائرل پوسٹوں اور عالمی کانفرنسوں کی تقاریر میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

برصغیر کی تقسیم سے لے کر آج تک، پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جو کشاکش چلی آ رہی ہے، وہ محض جغرافیائی نہیں بلکہ فکری اور تہذیبی بھی ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جس کی صدائیں لندن کے تھنک ٹینک سے لے کر نیویارک کے اخباری ایڈیٹوریل تک سنائی دیتی ہیں—جہاں کہیں بھی جنوبی ایشیا کی سیاست زیربحث آتی ہے، وہاں یہ بیانیاتی تصادم اپنا نقش ضرور چھوڑتا ہے۔

1948 سے شروع ہونے والی یہ کشمکش صرف عسکری نہیں رہی، اس نے سفارتی، نظریاتی اور ذرائع ابلاغ کے محاذ پر بھی اپنے جھنڈے گاڑ دیے۔ کشمیر کے قضیے پر ہونے والی پہلی جنگ سے لے کر کارگل کی برف پوش چوٹیوں تک، دونوں ممالک نے عالمی فورمز پر اپنے مؤقف کو منوانے کی کوشش کی۔ لیکن اگر تصویر کے تنقیدی گوشے کو دیکھا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بھارت نے عالمی بیانیے پر اپنی گرفت مضبوط کی۔ اس کا سبب محض واقعات نہیں بلکہ اُن کی پیشکش تھی۔ بھارت نے ہر واقعے—چاہے وہ ممبئی حملہ ہو یا پلوامہ—کو عالمی ضمیر کے سامنے اس انداز سے پیش کیا کہ وہ مظلوم بن کر ابھرا اور پاکستان کو ملزم کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب رہا۔ اس کی میڈیا مشینری، سفارتی مہارت اور مغرب سے فکری ہم آہنگی نے اُسے ہر بار برتری دی۔

اس کے برعکس، پاکستان ہمیشہ وضاحتیں دیتا رہا۔ ہم دلائل لاتے رہے، شواہد اکٹھے کرتے رہے، اقوام متحدہ کی دہلیز پر دستک دیتے رہے، مگر مؤثر بیانیہ تشکیل دینے میں پیچھے رہ گئے۔ شاید اس لیے کہ ہم سچ تو بولتے رہے، مگر اسے سلیقے سے کہنا بھول گئے۔ آج کے دور میں "حقیقت وہی مانی جاتی ہے جو خوش اسلوبی سے سنائی جائے"۔ بیانیہ محض جملوں کا پیراہن نہیں، بلکہ ایک پوری فکری تہذیب، ایک قومی مزاج، اور ایک نظریاتی زاویہ نگاہ ہوتا ہے جو کسی قوم کی داخلی کیفیت کو عکاسی بخشتا ہے۔ یہ کام صرف ریاستوں کا نہیں بلکہ صحافی، دانشور، اساتذہ، اور ہر باشعور شہری کا بھی ہے۔

پھر منظرنامہ بدلا۔ سوشل میڈیا ایک طوفان کی طرح آیا اور بیانیے کی بساط ہی پلٹ دی۔ اب جنگ صرف اخبار یا ٹی وی اسکرینوں تک محدود نہیں رہی، ایک عام شہری بھی چند جملوں یا ایک ویڈیو کلپ سے عالمی رائے عامہ کو جھنجھوڑ سکتا ہے۔ یہی قوت ہمیں پہلگام واقعے میں نظر آئی۔ بھارت نے حسبِ روایت انگلی پاکستان کی طرف اٹھائی، لیکن سوشل میڈیا پر پاکستانی صارفین نے ایسی فکری یلغار کی کہ انڈین پراپیگنڈا کے قلعے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ یوٹیوبرز، بے باک صحافی، اور چند غیر جانب دار سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے اربوں روپے کے بھارتی میڈیا کو فکری دباؤ میں لا کھڑا کیا۔ یہ ایک نئی سفارتی جنگ تھی، جو فیس بک کی پوسٹوں، ٹوئٹر اسپیسز، اور یوٹیوب وڈیوز میں لڑی گئی—اور جیتی گئی۔

پہلگام واقعے کے بعد جو سفارتی و ابلاغی تناؤ پیدا ہوا، اس میں پاکستان صرف سرحدوں پر نہیں بلکہ میڈیا کے محاذ پر بھی غالب نظر آیا۔ بھارت نے کئی پاکستانی چینلز پر پابندیاں عائد کیں، جو اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ بھارت سچائی سے خوف زدہ ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ پاکستان نے الیکٹرانک وارفیئر میں اپنی موجودگی منوائی ہے۔ آج ہماری آواز نہ صرف مقامی حدود سے نکل کر بین الاقوامی میڈیا تک پہنچ رہی ہے بلکہ عالمی ضمیر میں سوال بھی جگا رہی ہے۔

لیکن سوال یہ ہے: کیا ہم اس کامیابی کو محض وقتی فتح سمجھ کر بھلا دیں گے؟ یا اسے ایک طویل المدتی حکمتِ عملی میں ڈھالیں گے؟ ہمیں جذباتی ردعمل سے آگے بڑھ کر ایک مستقل میڈیا پالیسی تشکیل دینی ہوگی—ایسی پالیسی جو وقتی پروپیگنڈا نہیں بلکہ فکری جدوجہد کا تسلسل ہو، جو قومی مؤقف کو تہذیبی فہم اور فکری بلوغت کے ساتھ پیش کر سکے۔

بھارت کی بوکھلاہٹ اب صاف نظر آتی ہے۔ ایک یوٹیوبر کی تنقید پر مقدمہ، ایک ٹویٹ کو غداری قرار دینا، ایک پوسٹ کو ریاستی سلامتی کے خلاف سمجھنا—یہ سب اس بات کی علامت ہے کہ بھارتی بیانیہ اب کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے، جسے سچ کی ہوا ہلا سکتی ہے۔

اصل امتحان اب شروع ہوا ہے۔ بیانیے کی یہ جنگ محض سچ اور جھوٹ کی نہیں بلکہ تاثر، تسلسل، اور ترسیل کی جنگ ہے۔ اگر ہم نے سچ کو خوبصورتی، حکمت اور استقامت کے ساتھ پیش کیا تو وہ دن دور نہیں جب عالمی برادری ہمارے مؤقف کو سنے گی ہی نہیں، بلکہ محسوس بھی کرے گی۔ بیانیے کی یہ جنگ ہمیں یہ موقع ضرور دیتی ہے کہ ہم دنیا کے سامنے اپنی تصویر خود بنائیں، اپنی داستان خود سنائیں، اور سچ کو اتنے مؤثر انداز میں بیان کریں کہ وہ محض صدا نہ ہو بلکہ اثر بن جائے—قلب و ذہن پر ثبت ہوتا سچ نمایاں نظر آئے