ماں باپ سی نعمت کوئی اس دنیا میں نہیں ہے
حاصل ہو یہ نعمت تو جہاں خلد بریں ہے
اللّٰہ تعالٰی نے اس کائنات کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا سے کی۔اور دونوں ھی معاشرے کی بنیادی اکائی تھے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے انسانوں کو مختلف رشتوں میں پرویا ۔کسی کو باپ بنایا تو کسی کو ماں ۔اور کسی کو بیٹا ،بیٹی بنا کہ مقدس رشتوں کے حقوق مقرر کر دیئے ۔حقوق دو طرح کے ہیں ۔ایک حقوق اللّٰہ اور دوسرے حقوق العباد ۔حقوق اللّٰہ تعالیٰ میں معافی کی گنجائش ہے اگر اللّٰہ تعالیٰ اپنی رحمت سے نواز دیں۔مگر حقوق العباد کا معاملہ بہت سخت ہے ۔ان حقوق کی ادائیگی بہت زیادہ ضروری ہے۔لیکن والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کو اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی عبادت کے بعد سب سے افضل قرار دیا ہے ۔یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور تمہارے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔اگر تمہارے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بوڑھے ہو کر رہیں تو انھیں اف تک نہ کہو،نہ انہں جھرک کر جواب دو،بلکہ ان کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کیا کرو کہ اے اللّٰہ ان پر رحم فرما جس طرح انھوں نے مجھے رحمت وشفقت کے ساتھ بچپن میں پالا تھا".(سورۃ بنی اسرائیل)
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک ایک مذہبی اور اخلاقی فریضہ ہے
حضرت عبدااللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ ،میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا اللّٰہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ کون سا عمل پسند ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:'وقت پر نماز ادا کرنا۔میں نے عرض کیا:پھر کون سا عمل ؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا" (بخاری و مسلم)
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ،اسکی ناک خاک آلود ہو ،اسکی ناک خاک آلود ہو ،اسکی ناک خاک آلود ہو ،عرض کی گئی کس کی یا رسول اللّٰہ ؟آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جس نے اپنے والدین میں سے کسی ایک کو بوڑھاپے میں پایا اس کے باوجود جنت میں داخل نہیں ہوا"(مسلم)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ،ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والا جب اپنے والدین کو محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو اللّٰہ تعالیٰ اس کے ہر مرتبہ دیکھنے کے عوض اس کے اعمال نامے میں ایک مقبول حج کا ثواب لکھتا ہے ۔صحابہ نے عرض کی اگرچہ وہ دن میں سو مرتبہ والدین کو دیکھے ؟آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:ہاں"(مسلم)
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک بطورِ مذہبی اور اخلاقی فریضہ انجام دینا جنت کا راستہ ہموار کرتا ہے ۔
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:"جنت کی خوشبو پانچ سو برس کی مسافت سے محسوس ہوگی لیکن ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے اس سے محروم رہیں گے"(طبرانی)
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:"تمہارے اللّٰہ تعالیٰ نے ماں باپ کی نافرمانی تم پر حرام کردی"۔(بخاری)
ایک شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جہاد کی اجازت چاہی ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:کیا تمہارے والدین زندہ ہیں ؟اس نے کہا ،جی۔آپ نے فرمایا:ان کی خدمت جہاد سمجھ کر کرو۔(بخآری و مسلم)
والد کی اطاعت اور احترام کے متعلق ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:"باپ کی خوشی میں اللّٰہ کی خوشی ہےاور باپ کی ناراضگی میں اللّٰہ کی ناراضگی ہے"(ترمذی)
حسنِ سلوک کے ضمن میں ماں کا درجہ باپ سے زیادہ ہے کیونکہ ماں حمل وزچگی کی تکلیف اور سختی کو برداشت کرتی ہے بعد ازاں راتوں کو جاگ کہ بچے کو دودھ پلاتی ہے ۔اپنے آپ کو تکلیف دے کہ کمزوری نظر انداز کر کے اپنے بچے کو سینچتی ہے۔اسلیے اللّٰہ تعالیٰ نے انسانی جسم کے نچلے اور کم تر حصہ پیروں کے نیچے جنت رکھ دی ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے اور باپ اس جنت کا دروازہ ہے۔ حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کی کہ میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ،تمہاری ماں ۔اس نے پھر عرض کی ، فرمایا تمہاری ماں ۔اس نے پھر عرض کی ،فرمایا تمہاری ماں ،اس نے پھر عرض کی ،فرمایا تمہارا باپ "(بخاری و مسلم)
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور خدمت جہاد سے زیادہ افضل ہے ۔
ایک شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،میں جہاد پر جانا چاہتا ہوں ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اجازت عطا فرمائیں ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا ،تمہاری ماں زندہ ہے ۔جواب دیا ،ہاں ۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:تم جہاد پر جانے کی بجائے اپنی ماں کی خدمت بجا لاوء کیونکہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔(نسائی)
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک ایک مذھبی اور اخلاقی فریضہ ہے نہ صرف اس دُنیا میں بلکہ۔والدین کی وفات کے بعد بھی انکے درجات بلند بلند رکھنے کے لیے ایثال ثواب کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ،"اے میرے پروردگار میرے ماں باپ پر رحم جیسے بچپن میں انھوں نے مجھے پالا رحمت وشفقت کے ساتھ"(بنی اسرائیل)
ایک مرتبہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،کیا والدین کے مرنے کے بعد میں کوئی نیکی ان سے کر سکتا ہوں ؟آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:"ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو۔ان کے وعدے پورے کرو۔ان کے رشتوں سے صلہ رحمی کرو اور ان کے دوستوں کی عزت کیا کرو ".(ابوداؤد)
میرے خیال میں اس دنیا میں اگر کوئی احساس لافانی ھے تو وہ والدین کی موجودگی کا احساس اور ان کی شفقت ومحبت ہے۔اور ماں ھی وہ واحد رشتہ ہے جسے اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی محبت سے تشبیہ دی ہے کہ"اللّٰہ تعالیٰ اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے"اور والد کی ناراضگی کو اپنی ناراضگی کہا۔
مختصر یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ نوجوان نسل کو والدین سے حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
تبصرہ لکھیے