ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بری مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ارض پاکستان کی تعمیر وترقی میں بہت سی عظیم ہستیوں نے قربانیاں دیں۔اور قائد ملت لیاقت علی خان کا شمار انھی عظیم ہستیوں میں ہوتا ہے۔جو پاکستان کے لیے پیدا ہوئیں ،پاکستان کے لیے زندہ رہیں اور عزیز وطن پاکستان کیلئے جان قربان کی ۔اپ ملک کے صف اول کے اکابرین میں سے تھے۔آپ قائد اعظم کے دست راست اور آل انڈیا کے سیکرٹری تھے۔آپ بابائے قوم معتمد خاص تھے۔
آپ کرنال کے نواب خاندان کے چشم وچراغ تھے۔اپ 1895ء میں پیدا ہوئے ۔اپ کا سلسلہ نسب ایران کے مشہور فرمانروا نوشیرواں سے ملتا ہے ۔اپ کا خاندان مشرقی پنجاب اور یوپی میں بہت زیادہ جاگیروں کا مالک تھا۔اپ نے ابتدائی تعلیم یوپی میں ہی حاصل کی ۔بی اے علی گڑھ یونیورسٹی سے کیا اور بیرسٹری کی تعلیم آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ فارغ التحصیل ہو کر آپ نے ھندوستان واپس آکر سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اور مسلم لیگ کی نمائندگی بطورِ پارٹی لیڈر کی ۔1940ءمیں مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کے ڈپٹی لیڈر بنے۔1940ء میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی ۔اور اسی سال ہونے والے انتخابات میں ممبر منتخب ہوئے ۔46-1945ء کے انتخابات میں بھی آپ نے کامیابی حاصل کی اور مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کے چیئرمین منتخب ہوئے ۔ان انتخابات میں مسلم لیگ نے مسلمانوں کیلئے مختص سیٹوں میں سے %87کامیابی حاصل کی ۔اپ نے کیبنٹ مشن اور کانگریس کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں قائد اعظم کی معاونت کی ۔
تحریک پاکستان زوروں پر تھی بعد ازاں جب یہ طے پایا کہ تقسیم سے پہلے کانگریس اور مسلم لیگ کے نمائندوں پر مشتمل ایک عبوری حکومت قائم کی جائے گی تو قائد اعظم نے لیاقت علی خان کو مسلم لیگ کے نمائندوں کا لیڈر مقرر کیا ۔عبوری کابینہ میں آپ وزیر خزانہ بنے ۔اس صورت میں کانگریس اور اس کے لیڈروں نے وزارت خزانہ کا محکمہ مسلمانوں کے سپرد کردیا تاکہ ثابت کر سکیں کہ مسلمان وزارتوں کو سنبھالنے کے اہل نہیں ہیں ۔لیکن جناب لیاقت علی خان نے اپنی محنت اور قابلیت سے ان کی یہ کوششیں ناکام بنادیں۔عبوری حکومت کے حوالے سے جناب قدرت اللّٰہ شھاب اپنی کتاب شہاب نامہ میں لکھتے ہیں: "مسلم لیگ کی شمولیت کانگریس کی مرضی کے خلاف عمل میں آئی۔اس لیے کابینہ میں دونوں کی رفاقت شروع ہی سے معاندانہ اور مخاصبانہ رنگ میں ڈوبی ہوئی تھی". لیاقت علی خان کا تجویز کردہ فنانس بجٹ فروری 1947ء میں پیش کیا گیا ۔اس بجٹ نے ہندوستان کے بااثر طبقہ کو فکرمند کردیا ۔
14اگست 1947ءکو پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو قائد اعظم پہلے گورنر جنرل اور جناب لیاقت علی خان پہلے وزیر اعظم بنے۔کانگرس نے انگریز وائسرائے کے ساتھ مل کر زبردست سازباز کی اور کئی علاقوں کی پاکستان میں شمولیت کو رکوا دیا ۔کشمیر پر ظاضبانہ قبضہ تھا۔قائد اعظم اور انک ی ٹیم نے ان ناموافق حالات میں اس نوزائیدہ مملکت کے مسائل حل کرنے کا بیڑہ اٹھایا ۔ قائد اعظم جن کی شاندار قائدانہ صلاحیتوں اور شب و روز محنت سے پاکستان کا قیام ممکن ہوا تھا۔11ستمبر 1948ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تو ان کے بعد مملکت کے مسائل سے نبردآزما ہونے کی زمہ داری مکمل طور پر لیاقت علی خان کے کندھوں پر آن پڑی ۔ملک کی تعلیمی پالیسی بنانے کے لیے اعلیٰ درجے کے تعلیمی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں ۔نیشنل بینک کا قیام عمل میں لایا گیا ۔لاہور کے قریب پہلی نہر کی کھدائی کا آغاز ہوا ،کاکول اکیڈمی کا قیام عمل میں آیا ،1948ءکی پاک بھارت جنگ میں بہترین پالیسیوں کے باعث بھارت سے تقریباً ایک تہائی حصہ آزاد کروا لیا گیا جو آج کل آزاد کشمیر کہلاتا ہے ۔
ہمسایہ اور دیگر ممالک سے بہتر تعلقات استوار کرنے کے لیے بیرون ملک دورے کیے جن میں مصر ،ایران،کینڈا ،اور امریکہ شامل ہیں ۔تقسیم کے بعد نقل و حمل اور اقلیتی برادری کے مسائل کی وجہ سے پاک بھارت تنازعات شروع ہو گئے ۔ان غیر معمولی حالات میں بھی لیاقت علی خان نے اپنی زندگی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بھارت کا دورہ کیا اور پنڈت جواہر لعل نہرو سے ایک معاہدہ کیا جو لیاقت نہرو پیکٹ کے نام سے مشہور ہے ۔دورہ روس اور امریکہ کے حوالے سے بھی مختلف آراء پائی جاتی ہیں ۔پہلے دورہ امریکہ کی وجہ سے پاکستان کا جھکاؤ شروع سے امریکہ کی طرف ھو گیا ۔اس جھکاؤ کو کبھی روس نے اچھی نظر سے نہیں دیکھا کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور روس سرد جنگ کی کیفیت میں رہے۔بعدازاں روس سے بہتر تعلقات استوار نہ ہو سکے۔
مملکت کو ایک اسلامی جمہوری آئین دینے کے لیے آپ نے بھرپور کوشش کی ۔اپکی خواھش تھی کہ پاکستان کے آئین کی اساس قرآن وسنت ہو۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے وسیع پیمانے پر علماء وقانون دانوں سے مشاورت کی اور آئین کا ایک بنیادی ڈھانچہ تیار کیا جو قرارداد مقاصد کہلاتا ہے ۔ابتداء میں یہ پاکستان کے آئینوں میں دیباچے کی حیثیت میں رھا لیکن بعد ازاں 1985ءمیں ایک آئینئ ترمیم کے تحت اسکو آئین کا حصہ بنا دیا گیا اس میں اس بات کا اقرار کیا گیا کہ پاکستان میں خدائے تعالیٰ کو اقتدار اعلیٰ حاصل ہوگا جسے پاکستان کے عوام خدا کی مرضی کے مطابق استعمال کریں گے۔ملک میں کوئی قانون قرآن وسنت کے منافی نہیں بنایا جاسکتا ۔قراردادمقاصد لیاقت علی خان کی طرف سے قوم کو ایک لاثانی تحفہ تصور کیا جاتا ہے ۔
ملت کے اس عظیم الشان قائد کو 16اکتوبر 1951ء کو کمپنی باغ راولپنڈی (جوکہ انکی شہادت کے بعد لیاقت باغ کہلاتا ہے)ایک جلسہ عام میں اس وقت گولیاں مار کر شہید کیا گیا جب وہ اپنی تقریر کا آغاز کر رہے تھے ۔شہادت کے وقت ان کے لبوں پر یہ الفاظ تھے"اللّٰہ پاکستان کی حفاظت کرے"قائد ملت کے قتل کی تحقیقات عرصہ دراز تک جاری رہیں لیکن قوم آج تک اس سازش سے لاعلم ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے ایسے کردار تاریخ میں امر ہو جاتے ہیں جو ملک وملت کی سربلندی اور استقامت کے لیے اپنی جان قربان کر دیں اور شہید ہمیشہ زندہ ہی ہیں ۔ قائد ملت لیاقت علی خان مرحوم مسلمانان پاکستان کے عظیم رہنما تھے ،ملک و ملت کیلئے ان کی خدمات مثالی ہیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ انکے درجات بلند فرمائے آمین ۔
تبصرہ لکھیے