میرا نام پاک پتن ہے۔
ہاں، وہی پاک پتن... جو دریائے ستلج کے کنارے، پنجاب کی دل کش زمین پر، بابا فریدؒ کے نعلینِ مبارک کی برکت سے پہچانا جاتا ہے۔ صوفیائے کرام کی دھرتی، روحانیت کی درس گاہ، محبت و امن کا پیامبر، صدیوں پر محیط عقیدت کی ایک روشن شمع۔
میں خود کو فخر سے "بابا فریدؒ کا شہر" کہتا ہوں لیکن جب آنکھوں کے سامنے محرومیوں کا طوفان آتا ہے تو یہ فخر بھی نمی میں بدل جاتا ہے۔ میں وہ ضلع ہوں جسے پاکستان بنے 75 برس سے زائد ہو گئے لیکن میری قسمت کا ورق شاید ابھی تک پلٹا نہیں۔ میں پاکستان کے سب سے بڑے اور سب سے خوشحال صوبے پنجاب کا باضابطہ ضلع ہوں، جس میں دو تحصیلیں (پاکپتن اور عارف والا)، 54 یونین کونسلیں، اور 540 دیہات آباد ہیں لیکن میری گلیاں، میرے اسکول، میرے اسپتال اور میرے دل آج بھی اُسی محرومی میں سانس لے رہے ہیں جس میں تقسیم ہند کے وقت تھا۔
میں خود سے سوال کرتا ہوں:
"کیا میرا قصور یہ ہے کہ میں خاموش ہوں؟
کیا میری سزا یہ ہے کہ میرے مزار پر لاکھوں عقیدت مند آتے ہیں لیکن میرے بچوں کو دوا نہیں ملتی؟
کیا میری قسمت میں صرف زیارت ہے، سہولت نہیں؟"
میں نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو ہمیشہ یہ سکھایا کہ علم سب سے بڑی روشنی ہے۔ لیکن آج اُن کی آنکھوں میں اندھیرا ہے۔ میرے ضلع میں نہ کوئی سرکاری میڈیکل کالج ہے، نہ انجینئرنگ یونیورسٹی، نہ ہی کوئی بین الاقوامی معیار کی جامعہ۔
میرے نوجوان روزانہ موٹر سائیکل پر، بسوں میں لٹک کر یا پھر پیدل چل کر دوسرے شہروں کا رخ کرتے ہیں، ساہیوال، لاہور، فیصل آباد، یا پھر بیرونِ ملک۔
یہ صرف تعلیمی سفر نہیں، یہ ایک تلخ ہجرت ہے خوابوں کی، خواہشوں کی، اور شناخت کی۔
مجھے اکثر ایک سوال سنائی دیتا ہے:
"امی، ہم کب اپنے ضلع میں پڑھ سکیں گے؟"
اور ماں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا، صرف خاموشی ہوتی ہے، اور دل میں ایک دُعا...
میرے سینے پر جو اسپتال ہیں، وہ محض عمارتیں ہیں۔ ان میں نہ مشینیں ہیں، نہ ماہر ڈاکٹرز، نہ ایمرجنسی کی مکمل سہولت۔ جب کسی کو دل کا دورہ پڑتا ہے، جب کسی عورت کو زچگی میں پیچیدگی ہو، جب کسی بچے کو سانس رک جائے تو میری زمین پر صرف دعا باقی رہ جاتی ہے، دوا نہیں۔
میں نے خود کئی ماں باپ کو اپنی اولاد کی لاشیں اُٹھاتے دیکھا ہے، محض اس لیے کہ لاہور بہت دُور تھا اور سڑک بہت خراب۔
میں زرخیز زمین رکھتا ہوں لیکن میرے ہاتھ خالی ہیں۔نہ کوئی انڈسٹریل زون، نہ بڑی فیکٹری، نہ اکنامک حب۔ میرے نوجوان چائے کے کھوکھے، درزی کی دکان، یا زمینداروں کے کھیت تک محدود ہو چکے ہیں۔ جو ہنر رکھتے ہیں، وہ یا تو شہروں کی طرف بھاگتے ہیں یا خلیجی ممالک کی طرف۔
کیا روزگار صرف ان شہروں کا حق ہے جن کے وزراء اعلیٰ وہاں سے آتے ہیں؟ کیا ایک پورے ضلع کی آبادی صرف دو وقت کی روٹی کے لیے دوسروں کے در پر رہے گی؟
میری سڑکیں زخمی ہیں، میرے شہروں میں نہ میٹرو ہے، نہ اورنج لائن، نہ ماس ٹرانزٹ۔حتیٰ کہ ایک معمولی ائیرپورٹ تک کی سہولت بھی نہیں، حالانکہ دنیا بھر سے لوگ بابا فرید کے مزار پر آتے ہیں۔
ایک طرف لالہ موسیٰ جیسے چھوٹے شہروں کو ریلوے اسٹیشن، یونیورسٹی، اور جدید سڑکیں میسر ہیں، اور دوسری طرف میں... جس کا نام بھی صوفی ازم کی علامت ہے، ایک خستہ حال قصبہ بن کر رہ گیا ہوں۔
ہر الیکشن میں میرے جسم پر سیاسی جھنڈے گاڑے جاتے ہیں، نعروں کی گونج ہوتی ہے، وعدے کیے جاتے ہیں، دعوے کیے جاتے ہیں لیکن جب اقتدار ملتا ہے تو میں یاد نہیں رہتا۔ میری عوام صرف ووٹ دیتی ہے، بدلے میں محرومی پاتی ہے۔
میرے لوگ آج پوچھتے ہیں:
"کیا ترقی صرف لاہور، فیصل آباد یا راولپنڈی کا حق ہے؟
کیا بابا فریدؒ کے ماننے والے اس ملک کے شہری نہیں؟"
حل: اگر کوئی چاہے...
مجھے کچھ نہیں چاہیے، صرف وہی جو دوسرے اضلاع کو ملا ہے۔ اگر حکمران چاہیں تو:
میڈیکل کالج بنایا جا سکتا ہے
پبلک سیکٹر یونیورسٹی قائم کی جا سکتی ہے
صنعتی زون وضع کیا جا سکتا ہے
سڑکیں اور ٹرانسپورٹ سسٹم بہتر بنائے جا سکتے ہیں
سیاحت کو فروغ دینے کے لیے عالمی معیار کی منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔
آخری عرضی: میں بھی پنجاب ہوں
میں لاوارث نہیں ہوں، بس نظر انداز ہوں۔
میرے وجود کو پہچانیے۔
میرے درد کو سنیے۔
میرے خوابوں کو سہارا دیجیے۔
پاک پتن ایک مزار نہیں، ایک زندہ ضلع ہے۔ یہاں صرف صوفی کی تعلیمات نہیں، ایک مکمل انسانی زندگی سانس لیتی ہے جسے عزت، سہولت اور ترقی کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کسی بھی بڑے شہر کو۔
مجھے مت بھولیں، کیوں کہ میں بھی پنجاب ہوں۔
تبصرہ لکھیے