جب پچھلی نسل کے ماں باپ سختی، غربت، تنقید اور عدم توجہی کی دھوپ میں پروان چڑھے، تو ان کے دلوں نے چپکے سے ایک عہد کر لیا:
"میرے بچے یہ سب نہیں سہیں گے."
یہ عہد بظاہر محبت سے لبریز تھا، مگر درحقیقت، اُن زخموں کا ردعمل تھا جو برسوں سے اندر رستے رہے۔ہم نے اپنی پیاس ان کے آرام سے بجھائی، اپنے دکھوں کا کفارہ ان کی مسکراہٹوں سے ادا کیا۔دنیا کو ان کے لیے نرم بچھونا بنانے کی کوشش میں ہر کانٹا چن لیا، ہر در کھول دیا، ہر بوجھ اٹھا لیا۔نتیجتاً، آج ہمارا معاشرہ قحط الرجال کا شکار ہے۔ ایسے لوگ نایاب ہو گئے جو حق بات کہہ سکیں، سچ پر ڈٹ سکیں اور اپنی ذات سے بڑھ کر کسی عظیم مقصد کے لیے جی سکیں۔اور یوں… ہم نے ایک ایسی نسل کو جنم دیا جسے آزادی تو ورثے میں ملی، مگر اس کی قیمت چکانے والوں کے زخموں سے ناواقف رہی۔
جن کی آنکھوں میں خواب تو ہیں، مگر صرف دنیا کی چمکتی چیزوں، اونچے مقام اور اسٹیٹس کے ۔ یہ نسل “خود اعتمادی" کے نام پر مشتعل بن گئی."آگے بڑھنے" کے نام پر خود غرض بن بیٹھی. "اظہارِ رائے" کے نام پر بے ادب ہو گئی اور "خودداری" کے نام پر انا پرستی میں مبتلا ہو گئی۔جب روح بے قرار ہو تو دل میں ایک ایسا خلا جنم لیتا ہے جو نہ نظر آتا ہے،نہ زبان پر آتا ہے،مگر، زندگی کے ہر فیصلے میں بولتا ہے۔یہ خلا نہ مال سے بھرتا ہے، نہ آسائشوں سے، نہ تعریفی کلمات، نہ سوشل میڈیا کی داد سے۔
یہ خلا صرف زندگی کے اصل مقصد کی پہچان سے پُر ہوتا ہے۔ یعنی انسان جان جائے کہ وہ دنیا میں کیوں آیا ہے، کیا لے کر جائے گا اور اِسے کیا دے کر جانا ہے۔تب جا کر یہ خلا خاموش ہوتا ہے، اور روح کو قرار آتا ہے۔اب ہمیں اپنی نسل کو تباہ کرنے کے لیے دشمنوں کی گولیاں نہیں چاہئیں۔ہماری بے پناہ محبت، بےتحاشہ سہولتیں، اور ہمارا ڈرا ہوا شکست خوردہ دل ۔۔۔ یہی ان کے زوال کے لیے کافی ہیں۔
جب ہماری مائیں دعائیں کرنے لگیں
"یا اللہ میرے بچے کو کبھی دکھ نہ ہو، اس کی زندگی آسانیوں سے بھر دے، ہر امتحان میں کامیاب کر دے، ہر میدان ہموار اور رزق کی بھرمار کر دے۔ "
تو انجانے میں، ماں کی دعا، جنت کی ہوا کے بجائے دنیا پرستی کی آندھی بن جاتی ہے ۔ کیونکہ زندگی کی اصل تربیت دکھ، صبر، قربانی اور ایمان سے ہوتی ہے نہ کہ نرم بستر اور ہر وقت کی مسکراہٹ سے۔کبھی کسی ماں کو سنا ہے جو یوں دعا کرے:
"یا اللہ! میرے بچے کو حق پر ڈٹ جانے کی توفیق دے، اسے ظلم کے سامنے جھکنے نہ دینا، اگر وقت آئے تو اسے ایمان اور شہادت کی عظمت عطا فرمانا، اور مجھے اس کی جدائی پر صبر جمیل عطا فرمانا۔"
شاید نہیں سنا ہوگا کیونکہ ہم نے سہولت کو مقصد بنا لیا اور قربانی کو ظلم سمجھ بیٹھے۔ اور وہیں ۔۔۔ فلسطین کی مائیں؟جب ان کی گود خالی ہوتی ہے تو وہ بین نہیں کرتیں،وہ کہتی ہیں:
"الحمد للہ، میرا بیٹا شہید ہوا، اللہ نے قبول کر لیا۔"
وہ بچوں کو لوری سے سلاتی ہیں تو جنت کی باتیں کرتی ہیں،شہادت کے خواب دکھاتی ہیں،بیت المقدس کی عظمت سناتی ہیں،اور سکھاتی ہیں کہ زندگی عزت سے جیو، یا شہادت سے سنوار دو۔
جب وہ دعا مانگتی ہیں تو کہتی ہیں ۔۔
"یا رب، میرے بیٹے کو ہمت و حوصلہ دے،اسے ظالم کے سامنے سر اٹھا کر جینے کا ہنر دے،حق کے لیے لڑنے کا جذبہ عطا فرما،اور اگر وقت آئے تو اسے اپنے دین پر قربان ہونے کی سعادت نصیب فرما۔"
ان کی دعاؤں میں خود غرضی نہیں، قربانی کی تپش ہوتی ہے۔ان کی آنکھوں میں آنسو نہیں، جذبوں کا سمندر ہوتا ہے۔ ان کے لبوں پر فریاد نہیں، شکر اور صبر کا ترانہ ہوتا ہے۔وہ مائیں اپنے بچوں کے ماتھے پر بوسہ دے کر کہتی ہیں:
"جاؤ... تمہارا رب تمہیں بلا رہا ہے، اب تمہیں دنیا کی مٹی نہیں، جنت کی خوشبو نصیب ہوگی" . وہ جانتی ہیں کہ جن ماؤں کی دعاؤں میں شہادت کا نور ہو، اُن کی قوموں پر کبھی زوال نہیں آتا
تبصرہ لکھیے