ہوم << مہرالنسا سے مسرت جبین تک، ایک خوشبو جو لفظوں سےمہکی -اخلاق احمد ساغر

مہرالنسا سے مسرت جبین تک، ایک خوشبو جو لفظوں سےمہکی -اخلاق احمد ساغر

لکھنے بیٹھا ہوں تو قلم رک رک کر چلتا ہے، جیسے کسی مہذب محفل میں گفتگو کرنے سے پہلے لبوں پر ضبط کی چادر تان لی جائے۔ کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جن پر لکھنے سے پہلے دل کو قرطاس کرنا پڑتا ہے۔ محترمہ مسرت جبین انھی شخصیات میں سے ہیں جن کی ذات محض ایک فرد نہیں بلکہ ایک فکری روایت، نسائی وقار اور علمی تہذیب کا استعارہ بن چکی ہے۔ ان پر لکھنا فقط ایک تعریفی مضمون رقم کرنا نہیں بلکہ تہذیب کا قرض چکانے کی کوشش ہے، وہ تہذیب جو الفاظ میں سانس لیتی ہے اور کردار میں روشنی بانٹتی ہے۔

یہ کہانی ہے ایک معصوم سی بچی کی جو مہرالنسا کہلائی، جس کی پیشانی پر تقدیر نے علم و ادب کی چمک لکھی تھی۔ اور پھر تقدیر کا ایک محبت بھرا فیصلہ ہوا تین برس بعد وہ اپنی بہن کے نام کی محبت سے جُڑ کر مسرت جبین بن گئی۔ یہ محض ایک نام کی تبدیلی نہیں تھی بلکہ ایک فکر کی تشکیل، ایک عہد کی ابتدا تھی۔ اب یہ نام فقط ایک شناخت نہیں بلکہ اردو زبان کے وقار، نسائی بصیرت اور تہذیبی خدمت کا ایک روشن عنوان ہے۔

تعلیم: ایک چراغ سے قندیل تک
علم کا پہلا چراغ شاہ فیصل پبلک اسکول سے روشن ہوا، جہاں لفظوں کی خوشبو سے پہلی بار آشنائی ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا جب ایک ذہین بچی کی آنکھوں میں علم کی چمک اور دل میں جستجو کی چنگاری نے پہلی انگڑائی لی۔ وقت کے ساتھ یہ چمک سرگودھا یونیورسٹی کی علمی فضاؤں میں پہنچ کر ایک قندیل بن گئی۔ F.A سے لے کر M.A اردو تک کا سفر کسی سادہ تعلیمی منزل کا نہیں بلکہ ایک فکری اور روحانی ترقی کا نقشہ ہے۔ یہ سفر کبھی کتابوں کے درمیان گزرا، کبھی طالبات کے ہجوم میں اور کبھی تنہائی کے لمحوں میں، ہر لمحہ لفظوں سے رشتہ جوڑتا گیا۔ کچھ لوگ کتابیں پڑھتے ہیں، کچھ کتابیں لکھتے ہیں، مگر محترمہ مسرت جبین ان لوگوں میں سے ہیں جو خود جیتی جاگتی کتاب بن جاتی ہیں۔ ایک ایسی کتاب جو ہر صفحے پر بصیرت، تہذیب، محبت، شائستگی اور فکری حوصلہ دیتی ہے۔

تدریس: ایک خاموش انقلابی کا سفر
وہ کہتے ہیں نا، "جنھیں تعلیم حاصل کرنا آتا ہے، وہ طالب علم ہوتے ہیں، لیکن جو تعلیم دینے کا ہنر جانتے ہیں، وہ معمارِ نسل ہوتے ہیں۔" محترمہ مسرت جبین نے 2001 میں تدریس کا آغاز کیا۔ یہ آغاز ایک شعلے کی مانند تھا جسے نہ کبھی ہوا نے بجھایا، نہ تھکن نے روکا۔ پاسبان پبلک ہائی اسکول ہو یا پنجاب کیڈٹ اسکول، راوین پبلک ہائی سکول ہو یا دستگیر ایجوکیشن سسٹم، آکسفورڈ ایجوکیشن ہو یا کیمبرج کالج پاکپتن ، ہر ادارہ محترمہ کی تدریسی صلاحیتوں، اخلاقی تربیت، اور علمی روشنی کا گواہ ہے۔ ان کی تدریس صرف مضامین تک محدود نہیں بلکہ زندگی کے ہر پہلو کو سمجھانے کی ایک کوشش ہے۔ آج جب وہ "ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ اردو" کے منصب پر فائز ہیں، تو یہ صرف عہدہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی مرکز کی نگہبانی ہے۔ ان کے کمرۂ جماعت کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے گویا وہ کوئی کلاس روم نہیں بلکہ ادب کی بیٹھک ہو جہاں الفاظ بولے نہیں جاتے، سینچے جاتے ہیں۔ جہاں اردو صرف زبان نہیں بلکہ ایک جذبہ، ایک تربیت اور ایک تہذیب کے روپ میں سانس لیتی ہے۔

شخصیت: نسائی وقار اور لکھنوی شائستگی کا امتزاج
محترمہ مسرت جبین کا اندازِ گفتگو، لہجہ، طرزِ تدریس اور طلبہ و طالبات سے تعلق، سب کچھ ایک شائستہ نسائی وقار کا نمونہ ہے۔ ان کے لب و لہجے میں لکھنوی تہذیب کی شفافیت ہے اور رویے میں ایک ایسا نرم جمال جو صرف دلوں کو نہیں چھوتا بلکہ ذہنوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ ان کے ہاں بات کرنے کا سلیقہ اور سننے کا حوصلہ دونوں ہے۔ وہ صرف معلمہ نہیں بلکہ مربیہ بھی ہیں۔ ان کے ہر لفظ میں تربیت کا رنگ، ہر عمل میں وقار کی خوشبو اور ہر لمحے میں علم کی روشنی جھلکتی ہے۔

پاکپتن: ایک روحانی مرکز میں علمی چراغ
پاکپتن، جہاں بابا فرید گنج شکر کی روحانی روشنی نے صدیوں سے قلوب کو منور کر رکھا ہے، وہی شہر آج محترمہ مسرت جبین کے علم و ادب کے چراغ سے مزید روشن ہے۔ اس شہر میں صوفیاء کی خوشبو، درویشوں کی دانش اور روحانیت کی گہرائی موجود ہے اور انھی رنگوں میں ایک نیا رنگ محترمہ نے بھر دیا ہے، علم کا رنگ، تہذیب کا رنگ، اردو کا رنگ۔ پاکپتن میں علمی ماحول کو سنوارنے اور طلبہ کو اردو زبان سے جوڑنے میں ان کا کردار ایک مینارِ روشنی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جہاں وہ طلبہ کو صرف "سبق" نہیں پڑھاتیں بلکہ جینے کا سلیقہ، سوچنے کی راہ اور بولنے کی مہارت دیتی ہیں۔ آج پاکپتن کی حدود سے نکل کر ان کا نام اردو زبان کے افق پر اک نرم روشنی کی مانند جگمگا رہا ہے، وہ روشنی جو دلوں کو گرما دے اور ذہنوں کو جلا بخشے۔

ایک غیر مرئی ، جو ہر دل میں بولتی ہے
یہ حقیقت ہے کہ جو لوگ زیادہ بولتے ہیں، وہ کم کرتے ہیں، اور جو سچ مچ کچھ کر جاتے ہیں، وہ اکثر خاموش رہتے ہیں۔ محترمہ مسرت جبین انھی خاموش خدمت گزاروں میں سے ہیں۔ نہ کہیں دعویٰ، نہ کہیں نمائش، نہ سوشل میڈیا پر نمود، نہ تقریری محفلوں میں شہرت کا شوق لیکن ان کی تعلیمی تربیت، اخلاقی راہ نمائی اور تہذیبی شعور کی روشنی ہر طرف بکھرتی چلی گئی۔ ان کے طلبہ آج مختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں کوئی لیکچرر ہے، کوئی مضمون نگار، کوئی تربیت دہندہ، کوئی محقق۔ اور ان سب کے پیچھے وہ ایک خاموش ہستی ہے جو ہر دل میں موجود ہے: محترمہ مسرت جبین۔

الفاظ کا آخری سلام

ان پر لکھنا گویا لفظوں کو نیا وقار دینا ہے۔ ان کی سوانح حیات میں ہمیں ایک ایسی کہانی ملتی ہے جو تعلیمی اداروں سے نکل کر گھروں، دلوں اور ذہنوں تک جا پہنچی ہے۔ وہ صرف اردو کی معلمہ نہیں بلکہ اردو کی خادمہ، سفیر اور عاشقِ زبان ہیں۔ کاش ہر شہر میں ایک مسرت جبین ہو تاکہ ہر بچہ اردو سے محبت کرنا سیکھے، ہر بچہ تہذیب سے آشنا ہو، اور ہر نسل شائستگی کے گہوارے میں پروان چڑھے۔