قدرت کی حسین مخلوقات میں سے ایک شگفتہ اور باذوق تحفہ مارخور، نہ صرف پہاڑوں کی خاموش وادیوں کا رازداں ہے بلکہ ہماری قومی پہچان کا ایک زندہ ثبوت بھی ہے۔
یہ شہنشاہ ہے بلند و بالا چٹانوں کا جہاں زندگی کے رونق آمیز رنگوں کو فطرت نے اپنی مدبرانہ حکمت سے بکھیر رکھا ہے۔ بین الاقوامی یومِ مارخور، جو ہر سال 24 مئی کو منایا جاتا ہے، ہمیں ایک نہایت گہری اور معنی خیز تلقین پیش کرتا ہے کہ ہم اس اعلیٰ مخلوق کی بقاء کے لیے نہ صرف سرگرم ہوں بلکہ قدرتی توازن کی حفاظت میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔ مارخور فارسی کا زبان کا لفظ ہے جو کہ دراصل ‘مار’ اور ‘خور’ کے مرکب سے اخذ شدہ ہے، جس کے معانی ہیں ‘سانپ کھانے والا’۔
یہ نام اپنی طاقتور شاخوں اور بے مثال جبلّت کی وجہ سے اس کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ یہ بلند و بالا پہاڑوں میں رہتے ہوئے بھی نہایت حساس اور پرسکون مخلوق ہے، جو اپنی زندگی میں نرمی، تحمل اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کی مثال قائم کرتی ہے۔ اس کی یہ جبلّت ہمیں خود اپنی زندگی میں صبر و تحمل کی ضرورت اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے کی حکمت سکھاتی ہے۔اقوامِ متحدہ کی طرف سے بین الاقوامی یومِ مارخور کا اعلان ایک فکری اور سماجی انقلاب کا پیش خیمہ ہے، جو ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کراتا ہے۔
قدرتی وسائل کی بے دریغ لوٹ مار، جنگلات کی کٹائی، اور غیر محتاط انسانی سرگرمیاں مارخور جیسے نازک جانوروں کی بقاء کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ مارخور کا زوال دراصل فطرت کے نظام کا توازن بگاڑنے کے مترادف ہے، جو بالآخر انسان کی اپنی بقاء کو بھی متاثر کرے گا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
"وَلا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا" زمین میں اصلاح کے بعد فساد نہ کرو۔ (سورۃ الاعراف: 56)فطرت کے ساتھ عدل و احسان کا برتاؤ کرنا ہمارا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ مارخور کی خوبصورت سینگ، جن کی پیچ و خم نہایت منفرد اور دلکش ہوتی ہیں، قدرت کی نہایت خوبصورت تخلیق ہیں لیکن یہ سینگ کبھی کبھار انسانوں کی ہوس کی نذر ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک طرح کی جنگ ہے جو انسان اور قدرت کے مابین لڑی جا رہی ہے۔ مارخور نہ صرف پہاڑی علاقوں کی جنگلی حیات کا محافظ ہے بلکہ وہ ان خطوں کی ماحولیاتی صحت کا ضامن بھی ہے۔ اس کا نقصان ماحولیاتی زوال کی طرف ایک سنگین اشارہ ہے۔
اس یومِ مارخور پر ہمیں اپنی تعلیم و تربیت کا خاص خیال رکھنا ہوگا تاکہ ہماری نئی نسل میں فطرت کے تئیں محبت اور اس کی حفاظت کا جذبہ پروان چڑھے۔ قاری عبدالرحمن صاحب کی طرح جو اپنے سکول کے بچوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ "ہم وہی ہیں جو زمین کے وارث ہیں، ہمیں اس کی حفاظت کرنی ہے ورنہ ہم خود بے وطن ہو جائیں گے" ہمیں بھی چاہیے کہ اس فکری چراغ کو اپنے معاشرتی شعور میں جلا کر رکھیں۔
مارخور کی بقاء کے لیے مؤثر اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ جنگلات کی کٹائی کو روکنا، شکار پر پابندی، اور پہاڑی علاقوں میں ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے کے لیے اقدامات اٹھانا ناگزیر ہیں۔ یہ تمام اقدامات ایک ایسی اجتماعی ذمہ داری ہیں جس میں ہر فرد کا حصہ شامل ہے۔ جب تک ہم اپنی زندگیوں میں فطرت کی قدر و منزلت کو برقرار نہیں رکھیں گے، تب تک حقیقی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
یوں یہ یومِ مارخور نہ صرف ایک یاددہانی ہے بلکہ ایک تحریک بھی ہے جو ہمیں اپنی فطری اور اخلاقی ذمہ داریوں کا احساس دلاتی ہے۔ ایک ایسی ذمہ داری جو بقولِ اقبال، "نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا" کی طرح لازمی ہے، کیونکہ فطرت کی حفاظت، انسانی بقاء کی ضمانت ہے۔ مارخور کی زندگی میں چھپی ہوئی یہ حکمت ہمیں بتاتی ہے کہ ہر مخلوق کے وجود کی ایک قیمت ہے، اور اسی قیمت کے تحفظ کے بغیر انسانیت کا فلاح ممکن نہیں۔
لہٰذا بین الاقوامی یومِ مارخور ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم نہ صرف اپنے پہاڑوں کی یہ نایاب اور قیمتی مخلوق بچائیں بلکہ اپنے ماحول، اپنے کلچر، اور اپنی نسلوں کے لیے ایک بہتر دنیا کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس دن کی مناسبت سے تعلیم و شعور کے پروگرامز منعقد کر کے ہم اس بامعنی پیغام کو عام کریں کہ فطرت کی ہر شے میں ایک پوشیدہ درس ہے، جو ہمیں نہ صرف بقاء بلکہ بامقصد زندگی کی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
تبصرہ لکھیے