ہوم << زندگی کی تعظیم کا ایک فلسفہ - تیمور اکرم بلوچ

زندگی کی تعظیم کا ایک فلسفہ - تیمور اکرم بلوچ

کچھ عرصہ پہلے ہم کچھ دوست منگلا ڈیم کی سیر کرتے ہوئے وہاں ڈیم کے سپل وے پر پہنچے(سپل وے سے مراد وہ راستہ جہاں سے ڈیم کا پانی دریا میں گرتا ہے)جب ہم وہاں پہنچے تو شام اترنے کو تھی۔ وہاں ہمیں کار پر ایک شخص تھوڑا آگے کچھ مضافاتی علاقوں (گاؤں سناٹھا، گڈاری وغیرہ) کی طرف جاتا دکھائی دیا۔اس سے تھوڑی دیر گپ شپ ہوئی ہمیں عجیب لگا کہ یہ اکیلا شخص اس وقت رات کو اس غیر آباد سڑک پر تنہا سفر کرے گا تو کیا اسے خطرہ نہیں ہوگا کیونکہ وہ ستمبر اکتوبر کا موسم تھا اور ان علاقوں میں جنگلی جانوروں اور حشرات الارض کی بہتات ہونے کے ساتھ مجرمانہ سرگرمیوں کے لوگ بھی کثرت سے ہوتے ہیں۔ خیر اس شخص نے کہا کہ میں یہاں کا مقامی باشندہ ہوں اس لیے ہم اکیلے آتے جاتے رہتے ہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔میں انشاءاللہ خیریت سے ان مضافاتی دیہاتوں کا چکر لگا کے آج رات کو ہی واپس آ جاؤں گا خیر وہ یہ بات کر کے چلا گیا ہم دوست بھی منگلا ڈیم سے واپس دینہ شہر کی طرف آگئے۔

کوئی دو تین گھنٹوں کے بعد وہی کار والا شخص ہمیں پھر دینہ شہر میں مل گیا۔ ہم نے اس سے پوچھا۔ ہاں بھائی! خیریت سے واپس آگئے ہو تو اس نے کہا جی ہاں ،بس راستے میں سڑک پر سانپوں کی بہتات تھی اور میں نے راستے میں بے شمار سانپ دیکھے اور بڑی مشکل سے ان کو گاڑی سے بچاتا ہوا یہاں واپس پہنچا ہوں۔ ہم دوست بہت حیران ہوئے اور پوچھا کہ آپ نے ان سانپوں کو اپنی گاڑی کے پہیوں کے نیچے دے کر مارا کیوں نہیں؟ وہ شخص بولا بالکل بھی نہیں! کیونکہ میرے استاد نے مجھے گاڑی چلانا سکھاتے ہوئے نصحیت کی تھی کہ کوئی بھی ایسا جاندار جس کو فطرت نے زندگی دی ہے، اس جانور کو غیر فطری طریقے سے گاڑی کے نیچے دے کر نہیں مارنا ہے۔ ہمارے لیے یہ بات بہت عجیب تھی کہ سانپ تو انسان کا دشمن ہے اور ایک موذی جانور ہے۔ ہم نے ان جذبات کا اظہار اس شخص سے کیا تو اس نے کہا بے شک اپ ٹھیک کہتے ہیں لیکن اگر وہ دشمن بھی ہے تو اس کو جو زندگی قدرت سے ملی ہے، اس کی عزت کا تقاضا ہے کہ آپ سامنے آ کر اپنے اس دشمن کا سامنا کریں اور اسے مقابلہ کر کے ماریں جیسے کہ سانپ ہے۔ سانپ بے شک انسان کا دشمن ہے لیکن اس کو غیر فطری طریقے سے گاڑی کے پہیوں کے نیچے دے کر مارنا یہ غیر فطری طریقہ ہے جو اس کو دی گئی زندگی کی توہین ہے اور ایسے وقت میں تو بالکل ہی غلط بات ہے کہ جب آپ خود گاڑی میں بیٹھے ہوں شیشے چڑھا کر اور وہ سانپ رات کی تاریکی میں سڑک پر ہو اور آپ کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اس وقت تو اس کو مارنا اور بھی غلط ہے۔

کار والا شخص ہم دوستوں سے یقینا زیادہ پڑھا لکھا ہرگز نہیں تھا لیکن وہ جو فلسفہ بیان کر رہا تھا وہ بہت گنجلک اور دقیق تھا اور بظاہر سمجھ میں نہ آنے والا تھا۔ہم نے اس آدمی سے اس بات کا اظہار کیا تو وہ بولا کہ کہ آپ درست کہتے ہیں یہ واقعی ایک مشکل اور پیچیدہ فلسفہ ہے لیکن یہ فلسفہ انسان کو غیر انسانی مخلوقات کی زندگی کی اہمیت اور تحفظ کے بارے میں آگاہی دیتا ہے اور مجھے بھی کئی سالوں تک اس کی سمجھ نہیں آئی تھی اور میں اس کے حوالے سے تذبذب کا شکار تھا۔ میں ڈرائیونگ سیکھنے کے کئی سالوں بعد تک بھی اس بات یا فلسفے کو درست طور پہ نہ سمجھ سکا اور اس الجھن کو لے کے پھرتا رہا کہ یہ بات کیسے درست ہے کہ ایک انسانی دشمن کی زندگی کے حق کا اس حد تک احترام کیا جائے۔ پھر استاد کے بتائے ہوئے اس فلسفے کو جب پندرہ سولہ سال بیت گئے تو ایک دن مجھے اس فلسفے کی سمجھ آگئی اور میں اس کے مضمرات، اثرات اور حکمت سے واقف ہو گیا۔

ایک دن گاڑی چلاتے ہوئے میں کوٹلی آزاد کشمیر جا رہا تھا اور میں تنہا تھا اور کشمیر کے پہاڑوں میں تیز رفتاری سے سفر کر رہا تھا کیونکہ کسی وجہ سے مجھے منزل پر جلدی پہنچنا تھا تو میں حد رفتار سے بھی زیادہ تیز رفتار گاڑی چلا رہا تھا اور خطرے کو مول لے رہا تھا جبکہ پہاڑی علاقے میں ایسا کرنا بہت خطرناک ہوتا ہے۔پہاڑی علاقے میں گاڑی چلاتے ہوئے تو اور بھی محتاط ہو جانا چاہیے لیکن اس دن اپنی جلدی اور دیر سے پہنچنے کی فکر میں ،میں اس اصول کو بھلا بیٹھا تھا۔ دن کا وقت تھا کہ ایک جگہ کافی سیدھی سڑک نظر آئی۔ مجھے دور سے صرف سڑک کی چوٹی نظر آرہی تھی میں نے گاڑی کو مزید رفتار دے دی جب میں اسی رفتار میں سڑک کی چوٹی تک پہنچا تو اچانک سامنے سڑک کے درمیان ایک کالا ناگ پھن پھلائے کھڑا تھا۔ میں نے غیر شعوری طور پر استاد کے بتائے ہوئے اسی سبق کے مطابق اس موذی جانور کو بچانے کے لیے اپنی گاڑی کے سٹیرنگ کو مکمل طور پر دائیں طرف موڑ دیا اس لمحے سانپ کو بچانے کے علاوہ اور کوئی بات میرے ذہن میں نہ تھی۔ جب گاڑی کو مکمل دائیں طرف موڑ دیا تو میں نے دیکھا کہ چونکہ وہ سڑک کی چوٹی تھی اور وہاں سے آگے اترائی شروع ہو رہی تھی تو سڑک بھی دائیں طرف ہی جا رہی تھی یعنی اگر وہ ناگ سڑک کے درمیان پھن پھلائے کھڑا ہو کر میرا راستہ نہ روکتا یا میں استاد کی بتائے ہوئے سبق کے خلاف چلا جاتا تو پھر سڑک کی چوٹی کے بعد آگے سیدھی سڑک تو تھی ہی نہیں اور میں حادثے کا شکار ہو جاتا اور بہت زیادہ امکان تھا کہ موت کو گلے لگا لیتا۔ تو اس واقعہ نے مجھے درس دیا کہ استادوں یا بڑے لوگوں کی باتوں میں کچھ حکمت ہوتی ہے اس دن سے مجھے کسی جاندار کو قدرت کی طرف سے دی گئی زندگی کو غیر فطری طریقے سے نہ مارنے کا فلسفہ پوری طرح سمجھ آگیا کہ ایسا کیوں کہا گیا ہے۔