ہوم << مودی کا پاکستان پر اگلا حملہ، کب اور کہاں؟روح اللہ سید

مودی کا پاکستان پر اگلا حملہ، کب اور کہاں؟روح اللہ سید

بھارتی وزیراعظم مودی نے پاکستان کے ساتھ4 روزہ جنگ کے خطرناک ایڈونچر کے بعد قوم سے خطاب میں کہا کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں چل سکتے، دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ پاکستان کو دہشت گردی ختم کرنا ہو گی ورنہ یہ دہشت گردی اسے صفحہ ہستی سے مٹا دے گی۔

گجرات کے قصائی کے اس بیان سے مستقبل کے منصوبے اور مقاصد بالکل واضح ہیں۔ مطلب حالیہ جنگ بندی کے باوجود جنگ ختم نہیں ہوئی، ہاں محاذ آگ اور خون کی بجائے اب پانی ہو گا۔

یہ تو سب کو معلوم ہے ہی کہ امریکی صدر ٹرمپ نے بچوں سمیت 60 پاکستانیوں کی شہادت کے بعد 6 بھارتی لڑاکا طیاروں کی تباہی اور 26 فوجی اہداف پر پاک فضائیہ کے کامیاب حملوں کے بعد بھارت کیلئے شکست آمیز صورت حال پیدا ہوتے ہی جنگ بندی کروا دی تھی۔

سیٹلائٹ سمیت دیگر ذرائع سے امریکی اعلی فوجی حکام کو مکمل رپورٹ مل رہی تھی کہ جنگ کا پلڑا کس کے حق میں ہے، جونہی دیکھا گیا کہ پاکستانی شاہین، چینی ساختہ لڑاکا جہازوں اور ہتھیاروں سے بھارت کو دھول چٹا رہے ہیں اور اگر یہ جنگ مزید جاری رہی تو مودی بڑی شکست سے دوچار ہو سکتا ہے، اس ڈر سے کہ دنیا میدان جنگ میں فرانس کے جدید ترین طیارے رافیل کو مکمل ناکام ہوتے نہ دیکھ لے اور اس کی چین کے مقابلے مارکیٹ ہی نہ بیٹھ جائے تو ٹرمپ کو آگاہ کیا گیا جس پر جنگ بندی کا اقدام کیا گیا۔

یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ جب بھارت میزائل مار کر پاکستانی بچوں اور خواتین سمیت معصوم شہریوں کا قتل عام کر رہا تھا اور لاہور سمیت بڑے شہروں میں اسرائیلی ڈرون دندنا رہے تھے تو اس وقت ٹرمپ کو جنگ بندی کا خیال کیوں نہ آیا۔ تاریخ کا یہ سبق زیادہ پرانا نہیں کہ اسرائیل کو جب حماس، لبنانی حزب اللہ اور ایران سے مار پڑ رہی تھی تو ٹرمپ کو فوری جنگ بندی سوجھی تھی مگر اب جبکہ اسرائیل غزہ میں مسلمانوں کا قتل عام بلکہ بدترین سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطینی نسل ہی مٹا رہا ہے تو ٹرمپ کو جنگ بندی کا لفظ بھی یاد نہیں آ رہا۔

پاک بھارت جنگ کا معاملہ اتنا بھی سادہ نہیں کہ اچانک پہلگام میں دہشت گردوں کا حملہ ہوا اور بھارت اپنی ساری جنگی مشینری پاکستان کے بارڈر پر لے آیا۔ 90 کے قریب اسرائیلی ڈرونز کے ذریعے پاکستانی دفاعی نظام کی جاسوسی کی گئی جنہیں ماہر اسرائیلی اہلکار آپریٹ کر رہے تھے، مقصد آئندہ جنگ کیلئے بھی ڈیٹا اکٹھا کرنا تھا۔ الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے قریب نور خان ائیر بیس، چکوال کی مرید ائیربیس اور شورکوٹ کی رفیقی ائیربیس ]بارڈر سے 150 میل اندر[ کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ تو پاکستان دوست میڈیا کی خبر ہے تاہم دوسری جانب امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں مزید خطرناک دعوِیِ سامنے آیا ہے کہ10 مئی کی رات ہونیوالے بھارتی حملے میں 6 پاکستانی ائیر فیلڈز کو نشانہ بنایا گیا جس کا ثبوت سیٹلائٹ سے حاصل ہونیوالی تصاویر بتائی گئی ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ یہ 1971 کی جنگ کے بعد پاکستانی سرحدوں کے اندر ہونیوالا مہلک ترین حملہ تھا جس میں پاک فضائیہ کی2 موبائل عمارتیں،3 ہینگرز اور 2 رن ویز کو نقصان پہنچا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ان حملوں سے نہ صرف تباہی ہوئی بلکہ پاکستان کی دفاعی شیلڈ اور میزائل نظام کی ناکامی بھی کھل کر سامنے آ گئی۔ یہ بات اس لئے بھی اہم ہے کہ جی ایچ کیو اور جوائنٹ سٹاف ہیڈ کوارٹرز بھی راولپنڈی میں نور خان ائیر بیس کے قریب واقع ہیں جہاں اس طرح کا حملہ پورے پاکستان کا کنٹرول سینٹر تباہ کر سکتا تھا۔

بات یہیں تک محدود نہیں تھی، بھارتی فوج کی کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن کے تحت سریع الحرکت دستوں کا پاکستان میں داخل ہو کر صوبہ پنجاب اور سندھ کا رابطہ توڑ کر بلوچستان اور خیبر پختونخوا تک جانا اور وہاں افغانستان میں موجود اپنی پراکسیز کے ساتھ مل کر بنگلہ دیش طرز کا آپریشن کر کے پشتونوں اور بلوچوں کو آزاد وطن دلانے کا پلان بھی تھا۔ کشمیر کا ایک بڑا حصہ تو پہلے ہی بھارت کے قبضے میں ہے۔ منصوبے کا سب سے بڑا اور اہم ترین ہدف پاکستان کے ایٹم بم کو قبضے میں لینا یا ناکارہ بنانا تھا جس کیلئے پہلگام حملے کا سارا ڈرامہ رچایا گیا تھا۔

عالمی منظر نامے میں دیکھا جائے تو عراق، لیبیا سمیت مسلم ممالک کا ایٹمی پروگرام اسرائیل پہلے ہی تباہ کروا چکا ہے۔ اب رہ گیا ایران تو امریکی صدر ٹرمپ کی ٹیم ایران کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہے اور آخری خبریں آنے تک ایران ایٹم بم سے پیچھے ہٹنے کو تیار ہے۔ اب صرف رہ گیا پاکستان جس کیلئے بھارت کو کھڑا کیا گیا کہ وہ اسرائیل کی آنکھ میں کھٹکتے پاکستان کے اسلامی ایٹم بم کا کانٹا ہمیشہ کیلئے نکال دے۔

میدان جنگ میں تو بھارت کو کامیابی نہیں ملی، پاکستان سے ایٹم بم چھیننے کا پلان فی الحال تو ناکام ہو گیا تاہم خطرہ ٹلا نہیں، مودی نے12 مئی کے قوم سے خطاب میں پاکستان پر مزید حملوں کی دھمکی دی تھی اور یہ خالی خولی دھمکی نہیں۔ بھارت اب طیاروں اور توپوں کے میدان کے بعد ایک اور نیا مگر کئی گنا زیادہ خطرناک محاذ کھڑا کر رہا ہے کیونکہ پہلگام فساد کی جڑ اور مودی کے سردار نیتن یاہو کا ایجنڈا ابھی پورا نہیں ہوا۔

نیا محاذ ہے پاکستان پر آبی حملہ، جس پر مودی عمل درآمد شروع کر چکا ہے اور یہ حملہ ہو گا پاکستان کے حصے میں آنیوالے 3 دریاوں چناب، جہلم اور سندھ پر۔ بھارتی وزیراعظم نے ان دریاوں پر ایسے نئے پراجیکٹس شروع کرنے کا حکم دے دیا ہے جس سے پاکستانی دریاوں میں پانی تقریبا نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا۔ نریندر مودی بھارتی حدود کے اندر دریائے چناب پر رنبیر نہر کی لمبائی دگنی کرنا چاہتا ہے جس سے40 کیوبک میٹر فی سیکنڈ کی بجائے150 کیوبک میٹر فی سیکنڈ پانی حاصل کر کے پاکستان کا پانی روک لے گا۔ اسی طرح دریائے سندھ اور جہلم پر بھی ایسے ہی ملتے جلتے پراجیکٹس شروع کئے جائیں گے جس سے رہا سہا پانی بھی پاکستان آنے سے روکا جا سکے گا۔

پاکستان کو پہلے ہی پانی کے شدید بحران کا سامنا ہے اور دریائے سندھ کا نظام پاکستان کی جی ڈی پی میں تقریباً 25 فیصد حصہ ڈالتا ہے۔ پاکستان میں اگنے والی گندم، چاول، گنا اور کپاس جیسی فصلوں میں دریائے سندھ سے حاصل ہونیوالے پانی کا بڑا کردار ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی تقریباً 80 فیصد زراعت کا انحصار دریائے سندھ پر ہے جو 16 لاکھ ہیکٹر زرعی اراضی کو سیراب کرتا ہے۔ کراچی، لاہور اور ملتان سمیت بڑے شہروں کی آبادی کسی نہ کسی طرح دریائے سندھ کے نظام سے مستفید ہوتی ہے۔ تربیلا اور منگلا جیسے پاکستان کے بڑے ہائیڈرو پاور پلانٹس اسی دریا پر قائم ہیں، جو ملک کی توانائی کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

حکومت پاکستان سندھ طاس معاہدے اور پانی روکنے کی کسی بھی کارروائی کو جنگی اقدام تصور کرنے کی وارننگ دے چکی ہے مگر مودی اپنے انٹی پاکستان پلان پر کمر بستہ ہے کیونکہ اس کی پیٹھ ٹھونکنے والا وہ نیتن یاہو ہے جس نے غزہ کے 54 ہزار معصوم و نہتے لوگوں کو خون میں نہلا دیا اور 57 اسلامی ممالک سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی صرف زبانی بیان بازی تک محدود ہیں۔

امریکہ اسرائیل کے ہر منصوبے میں مکمل ساتھ دیتا آیا ہے اور آئندہ بھی دے گا، پاکستان کو ایک جانب بیرونی خطرے کے طور پر بھارت و اسرائیل کا سامنا ہے تو دوسری جانب اس سے بھی بڑا خطرہ موجود ہے جو آئی ایم ایف کی صورت میں ہے، اس کا طریقہ واردات ایسا ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا دوستی کی آڑ میں کیسے دشمنی ہو رہی ہے۔ پہلے برطانیہ سمیت طاقتور یورپی ریاستیں کمزور ممالک پر فوجی قبضہ کر کے وہاں کے قدرتی وسائل لوٹتے تھے، اس دوران مسئلہ یہ تھا کہ یورپی ریاستوں کو اپنے فوجی مروانے پڑتے تھے اور اسلحے کی مد میں اربوں ڈالر خرچ آتا تھا، اب انہیں سستا طریقہ میسر آ گیا ہے کہ کسی کمزور ملک پر براہ راست قبضہ کرنے کی بجائے وہاں کی معیشت پر قبضہ کرو پھر آہستہ آہستہ گرفت مضبوط کرو اور سود کی آڑ لے کر خوب قدرتی وسائل لوٹو۔ جیسے پاکستان کے ساتھ ہو رہا ہے کہ پہلے قرض کے شکنجے میں جکڑا جائے اور پھر ملک کی پالیسیاں تبدیل کروائی جائیں۔ آہستہ آہستہ دباو بڑھا کر، حکومتی معاملات میں مداخلت کرتے کرتے اپنی مرضی کی حکومت لائی جائے۔ حتی کہ ملک کی فوجی تنصیبات اور دفاعی معاملات بھی کنٹرول کر لئے جائیں۔

پاکستان کو بھی اسی سمت لے جایا جا رہا ہے کہ حکومت پاکستان نے اپنا دفاعی بجٹ بھی بڑھانا ہو تو پہلے آئی ایم ایف سے اجازت لینی ہو گی۔ پاکستانی میڈیا کی ایک خبر کے مطابق حکومت پاکستان، بھارت کے ساتھ ہونیوالی حالیہ جنگ کے سبب دفاعی اخراجات بڑھانے سے متعلق آئی ایم ایف سے درخواست کرے گا۔ ایک اسلامی ایٹمی ملک اپنے دفاع کیلئے جب آئی ایم ایف [جس پر امریکہ کا مکمل اثرورسوخ ہے] سے درخواست کرے گا تو امریکہ اپنی شرائط لازمی منوائے گا اور جس طرح میزائل پروگرام پر پابندیاں عائد کی ہیں اس طرح کچھ ہی عرصے میں ہمارا ایٹمی پروگرام بھی رسک پر ہو گا۔ یوں پاکستان پر ایک طرف بھارت سے جنگ کا بیرونی دباو تو دوسری طرف آئی ایم ایف کے ذریعے ایٹمی پروگرام پر کنٹرول کروا لیا جائے گا اور جیسے آج ایران کو مجبور کیا جا رہا ہے ویسے ہی پاکستان کو بھی دیوار سے لگا دیا جائے گا، ہدف ہے پاکستان کا اسلامی ایٹم بم جو اسرائیل کو کھٹک رہا ہے اور اسرائیل اس منصوبے کی پیش بندی کے بعد اب عمل درآمد کر چکا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی ارباب اختیار اپنی آنکھوں پر بندھی پٹی کھولیں اور پاکستان کا دفاع حقیقی معنوں میں ناقابل تسخیر بنانے کیلئے کثیر الجہت پالیسی تشکیل دیں۔ کشمیر تو ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے مگر پہلے بھارت کی آبی جنگ سے نبردآزما ہونے کیلئے بڑے ڈیم بنائے جائیں کیونکہ پانی پاکستان سمیت کسی بھی ریاست کی لائف لائن ہوتی ہے۔ دوسری طرف معاشی پالیسیاں ایسی تشکیل دی جائیں جو آئی ایم ایف سے جان چھڑوائے نہ کہ اس کے قرض در قرض کے شکنجے میں جکڑا جائے اور پھر پاکستان کا بھی لیبیا یا عراق جیسا حال ہو۔ عوام بھی اپنا کردار بخوبی نبھائیں، آج کے میڈیا کے باشعور دور میں حکومتی پالیسیوں پر نگاہ رکھیں اور جہاں حکومت بیرونی دباو میں آ کر کچھ غلط کرتی نظر آئے تو دریا کا رخ موڑ دیں۔