امریکی صدر ٹرمپ کے عرب دورے میں جس طرح مسلم خزانے امریکہ کے قدموں میں نچھاور کیے گئے، وہ تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ عرب حکمرانوں نے فقط دولت ہی نہیں، اسلامی وقار، عربوں کی حمیت اور امت کی غیرت کو بھی خوشنودیِ امریکہ کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اسلامی اقدار کو ٹرمپ کی مسکراہٹ پر قربان کر کے یہ واضح کر دیا کہ اب ان کے تاج امریکہ کے اشاروں پر جھکتے ہیں، قبلۂ اول کی فریاد ان کے درباروں میں بے وزن ہو چکی ہے۔
یہ امن نہیں، ایک خاموش قبر ہے جس پر لکھا ہے: "یہاں امت مسلمہ دفن ہے… وجہ موت: معاہدہ ابراہیمی!"
سعودیہ سے قطر تک اربوں ڈالر بہا دیے گئے، مگر غزہ کی چیخیں ان کے کانوں نے ان سنی کر دیں۔ اطلاعات کے مطابق امریکہ، لیبیا کو فلسطینیوں کی نئی ’قبرستانی بستی‘ بنانے کا منصوبہ پیش کر چکا ہے۔ بدلے میں لیبیا کے منجمد اثاثے بحال ہوں گے۔ یعنی فلسطینی خون کی قیمت پھر ڈالر سے لگائی جائے گی۔ دوسری طرف، اسرائیل کا ظلم بے لگام ہے۔ غزہ پر ہر چار منٹ بعد بم برس رہا ہے، ہزاروں شہید ہو چکے، یمن کی بندرگاہوں پر بھی آگ برسائی جا رہی ہے۔ اس خوں آشام خاموشی کے دوران عرب دنیا صرف تماشا دیکھ رہی ہے۔
اسی دوران عالمی طاقتیں نئے اتحاد، نئی راہیں اور نئی جنگوں کی تیاری میں مصروف ہیں۔ روس یوکرین مذاکرات ناکام، چین اور وسطی ایشیاء ٹرانس ایشین راہداری پر متحرک، ایران اور ترکی ایک نیا تجارتی نقشہ کھینچ رہے ہیں — لیکن ہمارا خطہ ابھی تک دشمن کے آلہ کاروں کی مداخلت کا شکار ہے۔ بھارت پاکستان کو پانی سے محروم کرنے کی مذموم اسکیم پر تیزی سے گامزن ہے، دریائے چناب کو موڑنے کی منصوبہ بندی مکمل ہو چکی ہے۔ جنوبی ایشیا کا آخری آزاد دریا خطرے میں ہے اور جنگ کا نیا باب کسی بھی وقت کھل سکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم صرف تماشائی بنے رہیں گے؟
کیا ہمارے حکمران بھی مستقبل کے طوفانوں کا ادراک رکھتے ہیں؟
مزید حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ سعودی عرب اور قطر جیسے ممالک دفاع پر اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں، مگر ان کی افواج عالمی رینکنگ میں پاکستان سے پیچھے ہیں — حالانکہ انہی افواج کو تربیت دینے والا، سنوارنے والا پاکستان ہے۔ امریکہ کو جب پاکستان کی عسکری قوت، چین کے ساتھ بڑھتی قربت، اور آپریشن "بنیان مرصوص" کی کامیابی کا اندازہ ہوا، تو وہ مسلم دنیا کے اُن حصوں کی طرف لپکا جہاں دولت تھی، مگر بصیرت نہیں۔ٹرمپ اُن دروازوں پر دستک دیتا رہا، جیسے محلے کا وہ پرانا عیار پھیری والا، جس سے لوگ ترس کھا کر خرید لیتے ہیں۔اگر پاکستان اپنے محاذ پر ڈٹا نہ ہوتا، تو ٹرمپ عرب دنیا سے 1700 ارب ڈالر کھینچنے میں کامیاب ہو چکا ہوتا۔ مگر ترکی نے محدود خریداریاں کیں، اور پاکستان نے اقتصادی غلامی سے انکار کیا۔
اب وقت ہے کہ پاکستان اپنا بڑا کھیل کھیلے۔ بلوچستان کو سنوارا جائے، گوادر کو چمکایا جائے، تاکہ دنیا دیکھے کہ جس پاکستان کو وہ نظر انداز کرتے رہے، وہی ان کا اسلامی و اقتصادی قبلہ بننے جا رہا ہے۔غزوہ ہند کی جو بشارتیں نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بتائی تھیں ، مبارک ہو انشاءاللہ وہ پاکستانی قوم کو نصیب ہوں گی۔ اب اس قوم کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ہم غزوہ ہند کی مہم میں شامل ہو چکے ہیں۔ یہ فیصلہ کن جنگ ہے جو بہت لمبی چلے گی۔ یہ آپ کی تقدیر ہے، آپ کا نصیب ہے۔
بس تھوڑا صبر… تھوڑا انتظار…
تبصرہ لکھیے