ہوم << عرب کی ٹرمپ سے بڑھتی قربتیں - عمر فاروق

عرب کی ٹرمپ سے بڑھتی قربتیں - عمر فاروق

ٹرمپ جب کے دوبارہ امریکہ سے صدر منتخب ہوئے ہیں اس وقت سے عالمی تعلقات کی فضا مکمل طور پر تبدیل ہو گئی ہے۔ امریکی صدر نے پہلی تقریر میں واضح کر دیا تھا کہ وہ امریکہ کو عظیم بنانے کے مشن پر نکلے ہیں خیر قومی سطح پر تو انہوں نے کئی تبدیلیاں کی اس کے ساتھ ساتھ چین کا معاشی اثر و رسوخ ختم کرنے کے لئے کچھ دلیرانہ اور بےوقوفانہ فیصلے لئے مگر چین نے اس کا جواب نہایت سمجھداری سے دیا اور بتایا کے چین ایک مصبوط قوم ہے اور یہاں تک محنت سے پہنچا ہے کسی کے پاؤں پڑ کر نہیں لیکن چین امریکہ معاشی جنگ کے بعد بھی عالمی منظر نامہ پر ٹرمپ کے اثرات اب کافی گہرے ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اس وقت ٹرمپ کی پہلی ترجیح پیسہ ہے جو امریکہ کی مارکیٹ میں پیسہ لگائے گا وہی ٹرمپ کا بھائی کہلائے گا۔

مگر ٹھہر جائیے حضور ایک امریکی بچہ بھی تو ھے جس کو ساتھ ساتھ پالنا ہے اور وہ بچہ اور کوئی نہیں بلکہ اسرائیل ہے جو اس وقت فلسطین کی صورتحال سب سے سامنے ہے جو کہ اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے اور اس کے بعد کیا ہونا ہے یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اب اسی بچے کو پالنے کے لئے ٹرمپ کا جہاز اس وقت سرزمین عرب کی شان بڑھا رہا ہے۔ جہاں ان کا واحد مقصد عربوں کو معاہدہ ابراہیمی میں شامل کرنا۔

وہی معاہدہ ابراہیمی جو 2020 میں اسرائیل متحدہ عرب امارات مراکش بحرین سوڈان کے درمیان طے ہوا تھا جو امریکہ کی ثالثی میں ہوا تھا یوں کہہ لیں اس ناجائز نکاح کا مولوی امریکہ تھا۔ اس معاہدے میں شامل کسی بھی فریق نے فلسطین کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔

ٹرمپ نے نہ صرف سعودیہ بلکہ قطر شام کو اس معاہدے میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے اور ساتھ یہ بھی واضع کیا کہ امریکہ شام پر لگی پابندیاں بھی ختم کر رہا ہے اور ایران اگر حسب اللہ جیسی پراکسیز کو ختم کرے تو ہم اس کے ساتھ معاہدہ کرنے پر غور کریں گے اور میری ذاتی رائے ہے کہ جیسے ایران کافی بار یہ کہہ چکا ہم امریکہ سے برابری کی سطح پر تعقات چاہتے ہیں اگر امریکہ ایران کی کرنسی کو مضبوط کرتا ہے اور اس کے سامنے دو ریاستی فارمولا رکھتا ہے یعنی فلسطین کو الگ ریاست تسلیم کر لیا جاتا ہے تو شاید مشرق وسطیٰ میں امن کی فضا قائم ہو سکتی ہے۔ بیتے کچھ دنوں میں سعودیہ اور ایران کے درمیان قربتیں بڑھنے کا امکان بھی ظاہر ہوا ہے ظاہر ہے جب دونوں مملک کے امریکہ سے تعلقات میں بہتری آئی تو آپس کی دوریاں ویسے بھی کم ہو ہی جانی ہیں۔

اب اس ساری صورت حال میں صرف پاکستان بچا ہوا ہے اور آخر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرے گا؟

میری ذاتی رائے کے مطابق جب امریکہ سعودیہ شام قطر ایران سے منوا لے گا تو پاکستان کے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہو گا۔ پاکستان معاشی طور پر ایک مجبور ملک ہے جو ہمیشہ سیاسی اور معاشی عدم اعتماد کا شکار رہا ہے۔ ایسی حالت میں عالمی مگرمچھوں کے بیچ کب تک اپنے دم پر لڑا جا سکتا ہے۔

ٹرمپ کو یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ طاقت سے ایک قوم ملک کو دبایا جا سکتا ہے پوری انسانیت کو نہیں لہذا انہوں نے بات چیت اور معاشی ترقی کو سہارا بنا کر اپنا مفاد نکالنے کی کوشش کی ہے۔ عرب کا جھکاؤ شروع ہی سے امریکہ کی طرف زیادہ ہے اور اسی وجہ سے کیا اب اسرائیل کا وجود ایک نئے طریقے سے قائم ہو گا یا نہیں یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن ٹرمپ کا یہ دورہ کامیاب ہو گا یا ناکام اس کا فیصلہ عرب کے ہاتھ میں ہے ابھی تک تو اس کو مکمل طور پر کامیاب ہی تصور کیا جا رہا ہے۔

ٹرمپ نے معیشت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے جس سے وہ معاشی فائدے کا لالچ دے کر اپنی مطالبات کو منوانے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ دور حاضر کی بہترین حکمت عملی ہے جس کو صدر نافذ کرنے جا رہے ہیں۔

باقی سوال رہا مار دو لڑ جاؤ یہ کر دو وہ کر دو یہ کم عقلی ہے۔ طاقت سے اپنے سے کمزور کو دبایا جا سکتا ہے جیتا نہیں جا سکتا۔ اسرائیل نے امریکہ کی مدد سے کمزور فلسطین کو دبایا اور اب اس کو جیتنے کے لئے امریکہ نے بات چیت اور پیسے کا سہارا لیا ہے۔
آنے والا وقت بین الاقوامی منظر نامہ کیا رنگ بدلتا ہے یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا۔