ہوم << بیانیہ در بیانیہ: سیاسی منافقت کا شاہکار - ارشدزمان

بیانیہ در بیانیہ: سیاسی منافقت کا شاہکار - ارشدزمان

جنگ کے لمحے نازک ہوتے ہیں۔ دشمن جب سرحد پار کرے، توپوں کی گرج سنائی دے، اور قوم کی نظریں اپنے محافظوں کی طرف اٹھیں، تو ایسے وقت میں قومیں اتحاد، حکمت اور حوصلے کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ مگر افسوس، ہمارے ہاں ایک سیاسی جماعت ایسی بھی ہے جس نے اس نازک ترین وقت کو بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ، ذاتی بغض اور اداروں سے انتقام کا میدان بنا دیا۔

یہ تحریر تحریک انصاف کے اُس بدلتے بیانیے کی داستان ہے جو محض چند گھنٹوں میں نہ صرف رنگ بدلتا رہا بلکہ کسی سیاسی انتشار کی مثال بن گیا۔

بیانیہ 1:
”سب ڈرامہ ہے، نورا کشتی ہے۔ اصل مقصد خان صاحب سے توجہ ہٹانا ہے!“
جب بھارتی حملے کی خبریں آئیں تو پہلا ردعمل یہ تھا کہ یہ سب ایک اسکرپٹڈ ڈرامہ ہے۔ گویا ملکی دفاع، ایئر بیسز، اور عوامی جذبات کو استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ کسی ایک فرد پر ہونے والے دباؤ کو کم کیا جا سکے۔
بیانیہ 2:
”بھارت نے حملہ کر دیا اور پاکستان روک نہ پایا۔ یہ کیسا ایئر ڈیفنس سسٹم ہے؟“
جب حملے کی حقیقت ماننا پڑی تو دوسرا بیانیہ فوراً آیا: پاکستان کی ناکامی۔ یعنی خود اپنے ملک کی عسکری صلاحیت پر سوال، دشمن کو موقع، اور قوم کو مایوسی۔

بیانیہ 3:
”پاکستان نے کوئی طیارہ نہیں گرایا۔ انٹرنیشنل میڈیا سے کوئی خبر لا کر دکھاؤ!“
اب حملے کو تسلیم کر لیا، مگر ردعمل کو جھوٹ قرار دیا۔ دشمن کی کامیابی کا پرچار، اپنی فوج کی کامیابی کا انکار بس شرط یہ تھی کہ ریاست کو کریڈٹ نہ ملے۔

بیانیہ 4:
”بس جنگ ختم ہو گئی ہے۔ پاک فوج جواب نہیں دے گی۔ یہی ڈیل ہوئی تھی!“
اب سارا ملبہ “ڈیل” پر ڈال دیا گیا۔ بغیر کسی ثبوت، بغیر کسی تصدیق، قوم کو بتایا گیا کہ خاموشی بزدلی نہیں بلکہ مفاد پرستی کا نتیجہ ہے۔

بیانیہ 5:
”بھارتی ڈرونز کراچی اور پنڈی تک پہنچ گئے۔ کہاں ہے فوج؟“
یہ بیانیہ گویا دشمن کی فتح کا اعلان تھا۔ عوام کے دل میں خوف، فوج پر بداعتمادی، اور ایک سیاسی نفرت کو ریاستی ادارے تک پہنچانے کی کوشش۔

بیانیہ 6:
“پاکستان نے حملہ کرنے کی کوشش کی، مگر بھارتی فضائیہ نے روک لیا!“
یعنی جوابی کارروائی بھی ناکام قرار دی گئی۔ کسی تصویر، کسی ویڈیو، یا کسی انڈیپینڈنٹ رپورٹ کا انتظار نہیں، بس فوری طور پر بھارتی مؤقف دہرا دیا گیا۔

بیانیہ 7:
”پاکستان کے تمام میزائل بھارتی S-400 نے تباہ کر دیے!“
اب دشمن کے ہتھیاروں کی شان میں قصیدے۔ گویا سوشل میڈیا ٹیم بھارتی وزارتِ دفاع کے ترجمان بن چکی ہو۔
پھر اچانک بیانیے کا رخ بدلتا ہے…

بیانیہ 8:
”پاکستان کو عظیم فتح مبارک ہو! یہ سب مردِ قلندر (عمران خان) کے وژن سے ممکن ہوا!“
جب قوم کے اندر جوش بڑھا، سچ سامنے آیا، تو تحریک انصاف نے فوراً بیانیہ بدل دیا: اب فوجی کامیابی کو عمران خان کی بصیرت قرار دے دیا گیا۔ سوشل میڈیا پر نعرے بدلے، اور خود کو سب سے بڑا “محب وطن” ظاہر کیا گیا۔

بیانیہ 9:
”یہ تو پاک فضائیہ نے کیا۔ پاک فوج کہاں تھی؟“
یعنی اداروں میں تقسیم ڈالو۔ ایک کو عزت دو، دوسرے کو گرا دو۔ صرف اس بنیاد پر کہ کون عمران خان سے قریب ہے اور کون نہیں۔

بیانیہ 10:
”ہم دل سے اُن نوجوانوں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے سوشل میڈیا پر دشمن کے جھوٹ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی سراہا!“
آخر میں جب منظر مکمل بدل چکا، قومی بیانیہ مضبوط ہو چکا، تب خود کو “سوشل میڈیا کے سپاہی” قرار دے کر سرکاری اداروں کی تعریف لینے کی کوشش کی گئی۔ وہی لوگ جو کل تک فوج کو طعنے دے رہے تھے، آج “ڈیجیٹل محب وطن” بن بیٹھے۔

یہ بیانیہ نہیں، سیاسی قلابازی ہے!
تحریک انصاف کے یہ مسلسل بدلتے مؤقف دراصل ایک فکری دیوالیہ پن کی نشانی ہیں۔ ان کا مقصد نہ تو قوم کی رہنمائی ہے، نہ دشمن کا مقابلہ، نہ ملکی دفاع کی حمایت — بلکہ صرف اور صرف خان پرستی ہے۔ وہی سچ ہے جو خان کے حق میں ہو، وہی جھوٹ ہے جو اس کے خلاف ہو، اور جو ریاستی ادارے خان سے اختلاف کریں، وہ غدار، بے غیرت، یا بکاؤ ہو جاتے ہیں.

ایسے نازک وقت میں، جب قوم کو یکجہتی کی ضرورت ہو، تحریک انصاف کا یہ متضاد رویہ کسی دشمن کی گولی سے کم مہلک نہیں۔

قومیں بیانیوں سے نہیں، شعور، وقار اور وحدت سے بنتی ہیں۔ اور جو ہر دو گھنٹے بعد بیانیہ بدلے، وہ تاریخ میں رہنما نہیں، تماشائی کہلاتا ہے۔

Comments

Avatar photo

ارشد زمان

ارشد زمان سیاست و سماج پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انھی موضوعات پر مطالعہ اور تجزیہ ان کا شوق ہے۔ اقامتِ دین کے لیے برپا تحریک اسلامی کا حصہ ہیں اور عملی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ حقیقی تبدیلی کے لیے عملی کاوشیں ان کے مشن کا حصہ ہیں۔

Click here to post a comment