ہوم << کامیاب اقوام کا راز: نظام، قانون اور شعور - عدنان فاروقی

کامیاب اقوام کا راز: نظام، قانون اور شعور - عدنان فاروقی

دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے، آپ کو ایک سادہ مگر گہرا اصول ہر کامیاب قوم کی بنیاد میں دکھائی دے گا: قانون کی حکمرانی، آئین کی بالا دستی اور نظام کی برتری۔ آج دنیا میں جو اقوام سائنسی ترقی، معاشی خوشحالی، تعلیمی بلندی اور انسانی فلاح کے میدان میں نمایاں ہیں، ان کی بنیادیں مال و دولت یا قدامت پر نہیں، بلکہ نظم و ضبط، قانون پسندی، انصاف، اور اجتماعی شعور پر استوار ہیں۔

اگر دولت کامیابی کی ضمانت ہوتی، تو برونائی اور کویت جیسے ممالک دنیا کی قیادت کرتے۔ ان کے پاس تیل کی دولت ہے، سرکاری خزانوں میں مال وافر ہے، مگر عالمی سطح پر ان کی حیثیت محدود ہے۔ اسی طرح اگر کسی قوم کا پرانا ہونا ترقی کی دلیل ہوتا، تو مصر اور بھارت سب سے آگے ہوتے۔ ہزاروں سال پرانی تہذیب، تاریخ اور ثقافت کے حامل یہ ممالک آج بھی ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں پیچھے ہیں۔ صرف ورثے پر فخر کرنے سے قومیں نہیں بنتیں، اس ورثے کو عقل، نظم اور جدید نظام کے تحت بروئے کار لانے سے ہی کامیابی ممکن ہے۔

آج جن اقوام نے دنیا میں برتری حاصل کی ہے، وہ ہر شعبے میں نمایاں ہیں۔ تعلیمی معیار ہو یا صحت کا نظام، معیشت ہو یا انصاف کی فراہمی، آزادی اظہار ہو یا انسانی حقوق یا کھیلوں کا میدان ، ان قوموں نے ہر میدان میں خود کو منوایا ہے۔ ان کی ترقی کا راز صرف ٹیکنالوجی یا وسائل میں نہیں بلکہ اس اجتماعی شعور میں ہے جو انہیں قانون کے تابع رہنے پر مجبور کرتا ہے۔ وہاں انسان خواہ صدر ہو یا عام شہری، سب قانون کے سامنے برابر ہیں۔ کسی کا ذاتی رتبہ، شہرت یا دولت نظام سے بالاتر نہیں۔

مغربی اقوام کی ترقی کی مثال دی جاتی ہے، اور بعض لوگ اسے محض اتفاق یا استعماری ورثہ قرار دیتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہاں کے نظام مضبوط ہیں۔ ادارے خود مختار ہیں، انصاف جلد ملتا ہے، کرپشن پر فوراً ہاتھ ڈالا جاتا ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قوم نے اجتماعی طور پر یہ طے کر لیا ہے کہ قانون اور ادارے مقدس ہیں، افراد نہیں۔ اسی لیے وہاں کا نظام ٹوٹتا نہیں، بگاڑ پیدا نہیں ہوتا، اور اگر ہوتا بھی ہے تو جلد درست ہو جاتا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشروں میں نظام سے زیادہ افراد کو اہمیت دی جاتی ہے۔ ہم عہدوں کے پجاری بن چکے ہیں، اور قانون صرف کمزوروں کے لیے رہ گیا ہے۔ جب تک ہم اس سوچ کو نہیں بدلیں گے، ہم صرف تماشائی رہیں گے — اقوامِ عالم کے میدان میں نہیں، حاشیے پر۔

آخر میں، اگر ہم سنجیدگی سے غور کریں تو بات نہایت واضح ہے: جو قومیں کامیاب ہوئیں، انہوں نے انسانوں کے بنائے نظام کو خود انسانوں سے مقدم جانا۔ انہوں نے اس راز کو پالیا کہ اصل طاقت کسی ایک فرد یا گروہ میں نہیں، بلکہ اصولوں، انصاف اور اجتماعی نظم میں ہے۔ وہ جان گئے کہ اگر قومیں قانون کے تابع ہو جائیں، تو وقت خود اُن کے قدم چومتا ہے۔ اور یہی وہ فلسفہ ہے جو ہمیں بھی اپنانا ہوگا، ورنہ ہماری تاریخ صرف حسرتوں کا نوحہ بن کر رہ جائے گی۔

Comments

Avatar photo

عدنان فاروقی

عدنان فاروقی ربع صدی سے زائد عرصہ بیرون ملک رہے۔ انگریزی، اردو، عربی اور ترکی زبانوں سے شناسائی ہے۔ مترجم اور محقق کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ اردو اور انگریزی ادب سے لگاؤ ہے۔ مشتاق احمد یوسفی اور غالب کے عاشق ہیں۔ ادب، تاریخ، سماجی علوم اور بین الاقوامی تعلقات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اردو نثر میں مزاحیہ و سنجیدہ اسلوب کو یکجا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے سماجی، تاریخی اور فکری موضوعات پر اظہارِ خیال کرتے ہیں

Click here to post a comment