ہوم << دوستی کے چراغ، وفا کی روشنی - سلمان احمد قریشی

دوستی کے چراغ، وفا کی روشنی - سلمان احمد قریشی

بین الاقوامی تعلقات اکثر مفادات کے تانے بانے سے جُڑے ہوتے ہیں۔ ملکوں کے درمیان دوستیوں کا دار و مدار زیادہ تر اقتصادی فوائد، عسکری معاہدوں یا جغرافیائی سیاست پر ہوتا ہے۔ مگر جب کوئی قوم آزمائش کی بھٹی سے گزرتی ہے تو اس کے دوستوں کی اصل پہچان سامنے آتی ہے، اور یہی لمحہ ہوتا ہے جب لفظ ''دوستی'' مجازی سے حقیقی معنوں میں ڈھلتا ہے۔

بھارت کی حالیہ جارحیت کے جواب میں پاکستان نے تاریخی کامیابی حاصل کی۔ میدانِ جنگ سے سفارتی سطح تک بھارت کے حصے میں شکست لکھی گئی۔ افواجِ پاکستان کی بہترین حکمتِ عملی، بہادری اور قوتِ ایمانی نے پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند کر دیے۔ پاک فوج نے بھارت کو آئینہ دکھا دیا، جنگیں جذبہ ایمانی، ہمت اور حوصلے سے لڑی جاتی ہیں، مکاری اور ٹی وی اسکرین پر جنگیں نہیں لڑی جاتیں، مودی سرکار نے اپنی قوم کو بیوقوف بنایا۔ بھارت کے طاقتور ہونے کا دعویٰ اور غرور پاک فوج نے خاک میں ملا دیا۔ ہمیں پاک فوج پر فخر ہے، سپہ سالارِ پاک فوج عاصم منیر نے قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا۔پاکستان امن پسند ملک ہے لیکن اپنے دفاع سے غافل نہیں۔ پاکستان ناقابلِ تسخیر فوجی طاقت کا حامل ملک ہے۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ بھارتی قیادت امن دشمن اور بزدل ہے۔ ایک خوش آئند امر یہ کہ چین، ترکی اور آذربائیجان نے مشکل کی گھڑی میں پاکستان کے ساتھ دوستی کا ایسا حق ادا کیا جو تاریخ کے صفحات پر سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ ان ممالک نے محض رسمی بیانات پر اکتفا نہیں کیا بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے پاکستانی قوم کو یہ یقین دلایا کہ وہ تنہا نہیں۔جب پاکستان پر مشکل وقت آیا تب دور دیسوں سے وفا کی کرنیں ابھریں۔ چین کی حکمت، ترکی کی غیرت، آذربائیجان کا خلوص،یہ وہ روشن مینار تھے جنہوں نے بتا دیا کہ دوستی صرف الفاظ کا ہار نہیں، یہ عمل کی مہک، جذبے کی روشنی اور وقتِ ضرورت ایک سایہ دار شجر ہے۔ پاکستان جب آزمائش کی راہوں سے گزرا تو ان دوستوں نے کندھے سے کندھا ملا کر یہ باور کروایا کہ دلوں کے رشتے، جغرافیے کے فاصلے نہیں دیکھتے، محبت کے قافلے، نفع و نقصان کا حساب نہیں رکھتے۔ہم ان رفیقوں کے خلوص کو سلام پیش کرتے ہیں، جنہوں نے نفع کی نہیں، رشتہ محبت کی بات کی، جنہوں نے مشکل وقت میں ساتھ دے کر وفا کے نئے باب رقم کیے۔ یہ وہ نایاب لمحے ہوتے ہیں جو اقوام کے دلوں میں راسخ ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کی سرزمین ان دوست ممالک کے خلوص کی مقروض ہے۔ یہ تعلق محض سفارتی کاغذوں پر لکھی سطور نہیں بلکہ دلوں کی کتاب میں درج سچائی ہے۔ یہ تینوں ممالک ہمارے لیے فقط اتحادی نہیں بلکہ ایسے بھائی ہیں جو ہر کڑے وقت میں سینہ سپر نظر آتے ہیں۔ یہی تعلقات ہماری خارجہ پالیسی کا سرمایہ ہیں، یہی تعلقات مستقبل کے امکانات کی بنیاد ہیں۔ آج ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں پاکستان زندہ باد۔۔ چین، ترکی اور آذربائیجان پائندہ باد

پاک چین دوستی ایک ایسی درخشاں مثال ہے جو وقت کے ساتھ مزید مضبوط اور گہری ہوتی چلی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید اس دوستی کے معماروں میں سے ایک تھے، جنہوں نے نہ صرف اس رشتے کو استوار کیا بلکہ اسے خلوص، احترام اور باہمی اعتماد کی بنیادوں پر قائم رکھا۔ پاک چین دوستی آج دنیا میں ایک ایسی مثال کے طور پر جانی جاتی ہے جو مفادات سے بالاتر، دلوں کے رشتے پر قائم ہے۔اس عظیم تعلق کی بنیاد 21 مئی 1951 کو رکھی گئی جب پاکستان اور چین کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا سرد جنگ کی لپیٹ میں تھی اور پاکستان کی ترجیحات مغرب کے ساتھ زیادہ تھیں، مگر کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو وقت سے آگے دیکھتی ہیں۔ انہی میں سے ایک ذوالفقار علی بھٹو تھے۔بھٹو شہید نے نہ صرف چین کو عالمی تنہائی سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ اس نئی دوستی کو پاکستان کے لیے معاشی، دفاعی اور تزویراتی فوائد کا ذریعہ بھی بنایا۔ 1963 میں وزیرِ خارجہ کا منصب سنبھالنے کے بعد انہوں نے 1962 کی چین بھارت جنگ کے بعد پیدا ہونے والے سفارتی خلا کو ایک تاریخی موقع کے طور پر پہچانا۔ جب بھارت اور چین کے تعلقات کشیدہ ہو گئے تو بھٹو نے پاکستان کے لیے چین کے ساتھ اتحاد کو نہ صرف بھارت کے خلاف توازن کا ذریعہ سمجھا بلکہ مغرب پر انحصار سے نکلنے کی ایک اسٹریٹجک ضرورت کے طور پر بھی دیکھا۔اس سے پہلے چین اور پاکستان میں سرحدی تنازعات تھے۔ بھٹو نے کمال سفارت کاری سے پاکستان اور چین کے مابین سرحدی تنازعے کو حل کرنے کی قیادت کی، جو 1963 کے تاریخی پاک چین سرحدی معاہدے پر منتج ہوا۔ اس معاہدہ کے ذریعے نہ صرف قراقرم کے علاقے میں سرحدی مسائل کو پُرامن طریقے سے حل کیا گیا اور دونوں ممالک کے درمیان ایک طویل المدتی اسٹریٹجک شراکت داری کی بنیاد رکھی گئی بلکہ 1942 مربع کلومیٹر رقبہ پاکستان کی حدود میں شامل کیا گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو اس طرح واحد پاکستانی لیڈر تھے جنہوں نے بغیر کسی جنگ کے صرف سفارتی مہارت اور ٹیبل ٹاک کمانڈ سے 1942 کلومیٹر رقبہ چین اور 5000 مربع کلومیٹر رقبہ بھارت سے واپس لے کر وطن کی سرحدوں میں اضافہ کیا۔ بھٹو کے اس تاریخی فیصلے کی چینیوں نے ہمیشہ قدر کی۔بھٹو کا وژن غیر معمولی تھا۔ جب وہ وزیرِ خارجہ تھے تو انھوں نے بارہا چین کو ''پاکستان کا فطری دوست'' قرار دیا۔ وہ پہلا پاکستانی رہنما تھے جنہوں نے یہ کہا کہ آنے والا وقت ایشیا کا ہے، اور چین اس خطے کی قیادت کرے گا۔ پاکستان اور چین کے درمیان انمول رشتے کی بنیاد میں ذوالفقار علی بھٹو شہید کا کردار سب سے روشن اور تاریخی ہے۔1976 میں بھٹو وہ آخری اور واحد غیر ملکی رہنما تھے جن کی ملاقات چین کے عظیم انقلابی قائد، چینی کمیونسٹ پارٹی کے چیئرمین ماؤ زے تنگ سے اس وقت ہوئی جب ماؤ کی صحت بگڑ چکی تھی اور کسی غیر ملکی رہنما سے ملاقات کو حکومتی سطح پر محدود کر دیا گیا تھا۔ مگر بھٹو شہید سے چیئرمین ماؤ زے تنگ کی آخری سرکاری ملاقات تاریخ کا وہ لمحہ ہے جو دونوں ممالک کی دوستی پر مہرِ تصدیق ہے۔ یہ ملاقات اس قدر غیر معمولی تھی کہ اس کے بعد چین نے اعلانیہ طور پر کسی بھی غیر ملکی شخصیت سے ماؤ زے تنگ کی ملاقات پر پابندی عائد کر دی۔چیئرمین ماؤ سے دوستی کی علامت اور بطور تقلید چیئرمین، بھٹو بعد ازاں پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہوئے اور ماؤ کیپ بھی اکثر پہنتے رہے۔ یہ تعلق صرف سفارتی بیانات تک محدود نہ رہا، بلکہ عملی میدانوں میں بھی دونوں ممالک نے ہر موقع پر ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا۔ دفاع، معیشت، ٹیکنالوجی، تعلیم اور توانائی سمیت ہر شعبے میں پاک چین تعاون نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔جے ایف-17 تھنڈر اس عظیم الشان رشتے کی ایک اور تابندہ علامت ہے۔ یہ طیارہ نہ صرف جدید ٹیکنالوجی کا شاہکار ہے بلکہ پاکستان اور چین کے مشترکہ خواب کی پرواز بھی ہے۔ پاک چین دوستی صرف ایک جملہ نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے۔ یہ دو قوموں کے درمیان ایسا تعلق ہے جسے آزمائشوں نے کمزور کرنے کے بجائے مزید نکھارا ہے۔

پاک ترک تعلقات دو برادر اسلامی ممالک کے درمیان تاریخی، ثقافتی، مذہبی اور اسٹریٹجک بنیادوں پر استوار ہیں۔ ان تعلقات کی جڑیں برصغیر کی خلافت تحریک سے جا ملتی ہیں، جب برصغیر کے مسلمانوں نے ترک خلافت کے تحفظ کے لیے تحریک چلائی اور مالی امداد بھی فراہم کی۔ خلافت تحریک (1919–1924) میں برصغیر کے مسلمانوں نے خلافتِ عثمانیہ کی حمایت میں زبردست تحریک چلائی، جو ترک عوام کے دلوں میں آج بھی زندہ ہے۔قیامِ پاکستان کے بعد ترکی ان چند اولین ممالک میں شامل تھا جنہوں نے پاکستان کو تسلیم کیا۔ ترکی اور پاکستان کے درمیان دفاعی تعاون مضبوط ہے۔ مشترکہ فوجی مشقیں، ہتھیاروں کی تیاری، اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے منصوبے جاری ہیں۔ دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کے لیے گہری محبت اور احترام رکھتے ہیں۔

پاکستان اور آذربائیجان کے تعلقات برادرانہ، باہمی اعتماد، اسلامی اخوت، اور اسٹریٹجک مفادات پر مبنی ہیں۔ یہ تعلقات روز بروز مضبوط ہو رہے ہیں، جن میں سیاسی، دفاعی، اقتصادی اور ثقافتی شعبوں میں قربت دیکھنے کو ملتی ہے۔ پاکستان نے آذربائیجان کو 1991 میں آزادی حاصل کرنے کے فوراً بعد تسلیم کیا، اور دونوں ممالک نے 1992 میں سفارتی تعلقات قائم کیے۔دونوں ممالک ایک دوسرے کے علاقائی تنازعات پر کھل کر حمایت کرتے ہیں۔ پاکستان نے کبھی آرمینیا کو تسلیم نہیں کیا، اور ہمیشہ نگورنوکاراباخ کے مسئلے پر آذربائیجان کے مؤقف کی حمایت کی ہے۔ آذربائیجان نے ہر بین الاقوامی فورم پر کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ 2020 کے نگورنوکاراباخ جنگ میں پاکستان کی بھرپور اخلاقی حمایت پر آذربائیجان نے شکریہ ادا کیا۔دونوں ممالک کے درمیان فوجی مشقیں، تربیتی پروگرام، اور دفاعی معاہدے ہو چکے ہیں۔ پاکستان آذربائیجان کو دفاعی سازوسامان فراہم کر رہا ہے۔ آذری عوام میں پاکستان کے لیے گہری محبت پائی جاتی ہے۔ پاکستان، ترکی اور آذربائیجان کے درمیان سہ فریقی اسٹریٹجک شراکت کا قیام عمل میں آ چکا ہے۔

یہی وہ رشتے ہیں جو وقت کی گرد میں ماند نہیں پڑتے، بلکہ ہر آزمائش میں مزید نکھرتے ہیں۔یہی دوستی کے چراغ ہیں جو وفا کی روشنی سے دلوں کو منور کرتے ہیں۔جب دنیا مفادات کی چالوں میں الجھی ہو، وہاں خالص رفاقت ایک نعمت بن جاتی ہے۔پاکستان اپنے ان مخلص دوستوں کے ساتھ محبت، شکر اور فخر کا رشتہ رکھتا ہے۔چین، ترکی اور آذربائیجان یہ صرف ممالک نہیں، دلوں کی دھڑکنیں ہیں، دوستی کی زندہ مثالیں ہیں۔

Comments

Avatar photo

سلمان احمد قریشی

سلمان احمد قریشی اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی، کالم نگار، مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ تین دہائیوں سے صحافت کے میدان میں سرگرم ہیں۔ 25 برس سے "اوکاڑہ ٹاک" کے نام سے اخبار شائع کر رہے ہیں۔ نہ صرف حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ اپنے تجربے و بصیرت سے سماجی و سیاسی امور پر منفرد زاویہ پیش کرکے قارئین کو نئی فکر سے روشناس کراتے ہیں۔ تحقیق، تجزیے اور فکر انگیز مباحث پر مبنی چار کتب شائع ہو چکی ہیں

Click here to post a comment